تائید جو مقصود خداوندی ہے اس طرح جانشین ہوتی ہے جس طرح پرندہ اپنے گھونسلے میں اس کی حالت ایسی ہوجاتی ہے گویا روح نبی کا صدیق کی زبان پر بولتا ہے حضرت عمرؓ نے بیعت کی تقریب پر یہ الفاظ فرمائے تھے کہ اگر محمدﷺ فوت ہوچکے ہیں تو خدا نے تمہارے درمیان ایسا ہی نور باقی چھوڑا ہے کہ جس کے ذریعہ حضرت محمدﷺ کو رہنمائی کی تھی اور وہ نور صدیق اکبرؓ کی ذات میں ہے اس سے بڑھ کر بروز روحانی کیا ہوگا کہ۱؎ صدیق کی ذات میں گویا نبی کی روح بولتی ہے۔
اور پھر آگے چل کر لکھتے ہیں:’’ومن مقامات القلب مقامان یختصان بالنفوس المتشبہۃ بالانبیاء علیہم الصلوٰت والتسلیمات ینعکسان علیہما کما ینعکس ضوئً القمر علیٰ مرأۃ موضوعۃ بازأ کوۃ مفتوحۃ ثم ینعکس ضؤہا علی الجدران والسقف والارض (حجۃ اﷲ ص۲۸۷)‘‘
مقامات قلبیہ میں سے دو مقام ایسے نفوس سے مخصوص ہیں جن کو انبیاء سے مماثلت حاصل ہوتی ہے۔ وہ مقام نبی کے دل سے صدیق کے دل پر ایسے منعکس ہوتے ہیں جیسے چاند کی روشنی کا پر تو پہلے اس آئینہ پر پڑتا ہے جو ایک روشندان کے سامنے پڑا ہو۔ پھر اس کی روشنی کا عکس دیواروں اور چھت اور زمین پر واقع ہوتا ہے۔
۱؎ صلوٰۃ مسعودی میں جو فقہ کی معتبر کتاب ہے لکھا ہے کہ نابینا کی اقتداء میں نماز جائز ہے کیونکہ نبی کے ساتھ روحانی مناسبت امامت کے لئے درکار ہے نہ جسمانی۔ سو جس کو نبی سے روحانی مناسبت زیادہ ہے وہ حقدار امامت ہے۔ فقدان بصر کا اس کے جواز یا عدم جواز میں کوئی اثر نہیں معلوم ہوا کہ ہر متبع سنت کو رسول کریم سے روحانی مناسبت ہوتی ہے لیکن صدیق اکبر کو سب سے زیادہ مماثلت روحانی آنحضرتﷺ سے حاصل تھی اس لئے وہ تمام صحابہ کی موجودگی میں امامت کے لئے منتخب کئے گئے اور حضور علیہ السلام نے فرمایا:
’’لا ینبغے لقوم فیہم ابوبکر ان یؤمہم غیرہ‘‘ اب نتیجہ بالکل صاف ہے کہ صدیق اکبرؓ کو سب صحابہ سے زیادہ مناسبت روحانی آنحضرت سے۔ حاصل تھی اور آپ نے وہ کارنامے دکھلائے کہ طبقہ ثانیہ نے ان کے متعلق یہ رائے ظاہر کی۔ ’’لقد قام مقام نبی من الانبیائ‘‘ مگر بااینہمہ وہ نبی نہیں اور آنحضرتﷺ نے ان کا شان انبیاء سے کم تر بیان کیا ہے جو ان کی نبوت کی نفی پر صریحاً مشتمل ہے۔