حضرت ابو بکر صدیقؓ نے (جن پر صدیقیت کی کھڑکی سے غیبی امور کا کشف ہوتا تھا اور اس وحی کا پر تو جو حضرت محمدﷺ پر نازل ہوتی آپ کے دل پر پڑ جاتا اور انہیں بھی وحی منزل پر ایسا اطمینان ہوجاتا جیسے خود رسول کریمﷺ کو) دعویٰ نبوت نہیں کیا۔
بقیہ حاشیہ: اور ان کے لئے موجب استقامت بنتی ہے۔ ’’واﷲ ما مات حتیٰ ترک السبیل نہجا واضحا فاحل الحلالی وحرم الحرام رواہ الترمذی‘‘ یعنی آنحضرتﷺ کی وفات کے موقع پر حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ رسول خداﷺ کا انتقال نہیں ہوا تا وقتیکہ آپ نے اس اسلام کی سڑک کو بالکل واضح اور روشن کردیا اور حلال وحرام کا بخوبی امتیاز کردیا۔ اگر دین میں کوئی کمی ہوتی تو حضورﷺ زندہ رہتے۔ جب دین مکمل ہوگیا تو خدا نے اپنے نبی کو بلالیا۔ اس میں آئندہ نبوت کے انسداد کی طرف اشارہ ہے اور امام حسین علیہ السلام کو بھی رسول خداﷺ نے اپنے ساتھ متحد الصفات بتلایا اور کہا کہ وہ میرا مظہر ہیں: ’’عن یعلی بن مرۃ ان رسول اﷲﷺ قال حسین منی وانا من حسین احب اﷲ من احب حسینا حسین سبط من الاسباط رواہ الترمذی‘‘ با اینہمہ رسول خداﷺ نے ان کو شان نبوت سے سرفراز نہیں فرمایا اور کہا: ’’الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ الا نبی الخالۃ عیسیٰ بن مریم ویحییٰ بن زکریا‘‘ یعنی دونوں صاحبزادے جوانان اہل جنت کے سردار ہیں مگر عیسیٰ بن مریم اور عیسیٰ بن زکریا سے ان کا شان نہیں ملتا۔ حضور علیہ السلام تو ان کا درجہ انبیاء سے نیچے بیان کرتے ہیں گویا اولیاء میں سے فرد کامل ہیں لیکن مرزا قادیانی خدا سے لڑائی کرتے ہیں اور بحکم: ’’من عادی الی ولیا فقد بارز اﷲ بالمحاربۃ وفی روایۃ فقد اذنتہ بالحرب‘‘ ان کے حق میں بے جا الفاظ استعمال کرکے خدا کے دشمن بنتے ہیں:
طلبتم فلا حامن قتیل بخیبۃ
فخییکم رب غیور متبرہ
واﷲ لیست فیہ منی زیادۃ
وعندی شہادات من اﷲ فانظروا
وانی قتیل الحب لکن حسینکم
قتیل العدیٰ فالفرق اجلیٰ واظہرہ
وشتان ما بینی وبین حسینکم
فانی اوید کل اٰن وانصرہ
بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر