عبادہ‘‘ یعنی فرشتوں کو وحی دے کر اپنے بندوں میں سے جدھر چاہتا ہے۔ بھیجتا ہے: ’’ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم‘‘ نبوت اللہ کی رحمت ہے جو اپنی مشیت کے مطابق جسے چاہتا ہے۔ دیتا ہے خدا بڑے فضل والا ہے: ’’ولکن اﷲ یمنّ علیٰ من یشاء من عبادہ‘‘ خدا جس پر چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے فضل کرتا ہے۔
یہ آیات بآواز بلند بتلا رہی ہیں کہ نبوت ایک فیض وہبی۱؎ ہے جو اسباب پر منحصر نہیں اور اس کا مکتسب کرنا بھی ناممکن ہے۔
فلاسفہ کے نزدیک نبوت کسبی ہے
اور فلاسفہ اور غلاّۃ متوصفہ کا دعویٰ قرآن کی آواز کے بالکل مخالف ہے وہ کہتے ہیں نبوت ایک کسبی فضیلت ہے جیسے پیشتر ازیں بحوالہ شفاء مؤلفہ قاضی عیاضؒ خاکسار تحریر کرچکا ہے۔ مرزا قادیانی قرآن کی آواز کے تابع نہیں ہوتے بلکہ فلاسفہ کا سرود انہیں بھاتا ہے۔
ابن تیمیہ
امام ابن تیمیہ نے فرقان میں بھی اس قول کو فلاسفہ کا مذہب بتلایا ہے:’’فلما ارادوا ہٰؤلاء المتاخرون ومنہم کابن سینا ان یثبت امر النّبوۃ علیٰ اصلہم الفاسدۃ زعموا ان النّبوۃ لہا خصائص ثلاثۃ من التصف بما فہو نبی ان یکون لہ قوۃ علمیۃ یسمونہا القوۃ القدسیۃ ینال بہا العلم بلا تعلم وان یکون لہ قوۃ تخییلیۃ تخیل ما یعقلہ فی نفسہ بحیثیت یری فی نفسہ صورا او یسمع فی نفسہ صوتا کما یراہ النائم ویسمعہ ولا یکون لہا وجود فی الخارج وزعموا ان تلک الصور ہی ملائکۃ اﷲ وتلک الاصوات ہی کلام اﷲ و ان یکون لہ قوۃ فعالۃ یوثر بہا فی ہیولی العالم وجعلوا کرامات الاولیاء ومعجزات الانبیاء وخوارق السحرۃ من قوی النفس فاقروا من ذلک بما یوافق اصولہم دون قلب العصاحیۃ ودون انشقاق القمر ونحو ذلک فانہ ینکرون وجود ہذا‘‘
۱؎ نبوت کے وہبی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کا حصول اسباب پر منحصر نہیں جیسے مرزا قادیانی کا قول ہے کہ فنا فی الرسالۃ سے نبوت حاصل ہوجاتی ہے اور ثانیاً یہ کہ اس کا فیضان بطور حقیقت نہیں بلکہ اس کا فضل ہے جب وہ باب نبوت کو مسدود کردے تو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا کہ اسے کیوں روکا گیا آنحضرتﷺ کے بعد اس نے قطعاً باب نبوت کو مسدود کردیا۔