جب متاخرین ابن سینا وغیرہ نے نبوت کی تقریر اپنے فاسدہ اصول کے مطابق کی تو یہ تجویز باطل ٹھہرائی کہ نبوت کے تین خصائص ہیں جو ان کو اپنی ذات میں پیدا کرلے وہی نبی ہوجاتا ہے۔ اول یہ کہ اسے قوت علمیہ حاصل ہو جسے باصطلاح خود وہ قوت قدسیہ کہتے ہیں اس کا خاصہ یہ ہے کہ بلا تعلم انسان کو علوم میں مہارت ہوجاتی ہے۔ دوئم اس کی قوت تخییلیہ ایسی تیز ہو کہ معقولات کے نقشے اور تصویریں اسے نظر آنے لگیں اور اپنے دل میں اسے آواز سنائی دے جیسے نائم کا حال ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ بعض اشکال دیکھتا اور آوازیں سنتا ہے۔ جن کا وجود خارجی نہیں ہوتا اور ان کا زعم فاسد یہ بھی ہے کہ یہ ذہنی تصویریں خدا کے ملائکہ ہیں اور یہ غیبی آوازیں جو قوت متخیلہ کے اثر سے ظاہر ہوتی ہیں۔ کلام الٰہی ہیں سوئم اس کی قوت فعالہ ایسی ہو کہ ہیولیٰ عالم پر اپنا اثر ڈال سکے انبیاء کے معجزات اور اولیاء کے کرامات اور ساحروں کے خوارق کو انہوں نے قوی نفس کا اثر بتلایا ہے اوروہ صرف ایسے معجزات کے مقر ہیں جو انکے ان اصول پر پورے اترتے ہیں قلب عصا اور انشقاق قمر جن کو نفسانی قوی کا اثر نہیں کہا جاسکتا ہے وہ انکے بالکل منکر ہیں۔‘‘
گویا یہ صفات جو کوئی محنت سے حاصل کرے بزعم فلاسفہ وہ نبی ہوجاتا ہے مگر فلسفہ قرآنیہ منجانب اﷲ نازل شدہ ہے اس لئے وہ انسانی تجویزات کا مبطل ہے وہ قرار دیتا ہے کہ نبوت فیض وہبی ہے جو اسباب ثلاثہ پر منحصر نہیں یہی کل اہل سنت وصحابہ وتابعین کی لائن ہے۔
حافظ ابن حبان کا واقعہ
حافظ ابن حبان جن کا علم قابل رشک اور پایہ محدثین میں اعظم تر ہے (وہ ایک کتاب تلزم الصحۃ جو صحیح ابن حبان کے نام سے موسوم ہے اپنی یادگار میں چھوڑ گئے ہیں۔) ایک قابل قدر بزرگ تھے مگر اہل زمانہ نے آپ سے یہ سوال کیا کہ نبوۃ کیا ہے تو آپ نے ایک ایسا جواب دیا جس میں حاسدین ایک دوسرا احتمال بھی پیدا کرسکتے تھے یعنی النبوۃ العلم والعمل نبوت کے لئے علم اور عمل لازم ہے یعنی نبی اپنے علم کے مطابق عامل ہوتا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کاقول ہے: ’’وما ارید ان اخالفکم الیٰ ما انہکم عنہ ان ارید الا الاصلاح ما استطعت‘‘ میں یہ نہیں چاہتا کہ جو کہوں اس کے خلاف عمل کروں میرا ارادہ حسب استطاعت اصلاح کرنے کا ہے اور رسول خداکے سوانح میں قاضی عیاض نے ایک وفد کا قول اس طرح نقل کیا ہے: ’’لایامر بخیر الاکان اول عامل بہ‘‘ یعنی جب کسی معروف کام کا ارشاد فرماتے ہیں تو پہلے آپ اس پر عامل ہوجایا کرتے ہیں لیکن حاسدین کا ستیاناس انہوں نے اس عبارت میں ایسا احتمال پیدا کیا جو سراسر اجماع امت اور طریق اہل سنت اور سلف صالحین کے خلاف تھا یعنی