توہم واشینا بلیل مزارہ
فہم لیسعے بیننا بتباعد
فعانقتہ حق اتحدنا تعانقا
فلما اتانا مارای غیر واحد
’’ویقرب من ذلک ما قیل بالفارسیۃ‘‘
{کہ رقیب آمدوشناخت نشان من وتو (اتحاف النبلائ)}
یعنی عاشق ومعشوق کے درمیان کمال درجہ کا اتحاد یہ ہے کہ ایک انسان بعینہ دوسرے کا مظہر ہوجائے اور اسے دیکھ کر کوئی شناخت نہ کرسکے کہ حقیقت یہ فلاں انسان ہے جیسے رویاء میں میں نے سرور کائناتﷺ کو دیکھا کہ محدث ابن حزم سے معانقہ کیا اور وہ ایک دوسرے میں روپوش ہوگئے اور وہاں ہم سوائے رسول خداﷺ کے اور کسی کو نہ دیکھتے تھے یہ اعلیٰ درجے کا اتصال ہے جسے متصوفین اتحاد کہتے ہیں۔
ہمارے چغل کو یہ گمان ہوا کہ محب ومحبوب کی رات کو ملاقات ہونے والی ہے تو اس نے ہمارے درمیان تفریق کی بے حد کو شش کا ارادہ کیا۔ جب میرا اس سے معانقہ ہوا تو معانقہ کی حالت میں ہم دونوں واحد ہوگئے۔ جب رقیب آیا تو اس نے صرف ایک ہی منظر دیکھا۔ دوسرا وہاں کوئی نہ تھا۔ یہ عربی اشعار کا مطلب ہے۔ اور فارسی شعر اء کا مطلب بھی اس کے قریب قریب ہے کہ میرے اور تیرے درمیان اتحاد کا جذبہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ رقیب جب آیا تو وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ اس لئے میرا اور تیرا جدا جدا نشان شناخت نہ کرسکا۔
مگر یاد رکھو کہ یہ اتحاد حقیقی نہیں بلکہ وصفی ہے جو غلبہ محبت صادقہ سے حاصل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان کی محبت اسے فناء کے درجہ تک پہنچا دیتی ہے اور وہ اپنے ستون وار کان مضمحل پاتا ہے اور محبوب کی ہستی کا اپنے پر غلبہ دیکھتا ہے اور پاتا ہے کہ میں اسی مظہر میں ظاہر ہوا ہوں اور اس کے اوصاف کا انعکاس اپنی روحانیت میں منقوش دیکھ کر شک وشبہ میں واقع ہوجاتا ہے اور