واثبات قدم عالم وامثال آن از مباحث فن کلام والٰہیات فلاسفہ از قبیل بدعات حقیقت است اگر صاحب آن اعتقادات مذکورہ را ازجنس عقائد دینیہ میشماردوالا دریں جزو زمان دربدعات حکمیہ البتہ مندرج است چہ سعی درا دراک حقیقت آں واہتمام تنقیح آل ومعدود شدن صاحب آں ورزمرہ علماء دین وحکماء ربانین وتمدح بآں درمقام ذکر کمالات دینیہ درعرف عوام بلکہ درکلام خواص ہم دائر است وسائرات‘‘
حافظ ابن حزم کا اتحاد وصفی آنحضرتﷺ سے
۲… بروز وصفی جس کی حقیقت مذکور ہوچکی مسلم ہے کہ انسان کی روحانیت پر اتباع انبیاء سے اوصاف واخلاق۱؎ انبیاء کا انعکاس پڑ جاتا ہے اور اس کی روح بالکل ان کے صفات حسنہ سے رنگین ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ روحانیوں کے نزدیک دونوں میں امتیاز مشکل ہوجاتا ہے اور وہ اس شعر کا مصداق ہوجاتا ہے۔
من تو شدم تو من شدی
من جاں شدم تو تن شدی
تاکس نگوید بعد ازاں
من دیگرم تو دیگری
اور اسی کو اہل تصوف اتحاد وبروز کہتے ہیں۔ شیخ اکبر نے فتوحات کے باب ۲۲۳ میں حافظ ابن حزم کے متعلق ایک ایسا واقعہ لکھا ہے جس سے ان کا ااتحاد وصفی آں حضرتﷺ سے بدرجہ کمال سمجھا جاتا ہے۔ ’’غایۃ الوصلۃ ان یکون الشیء عین ما ظہرولا یعرف انہ کما رایت النّبیﷺ فی المنام وقدعانق محمد بن حزم المحدث فغاب الواحد فی الاٰخر فلم نرالا واحدا وہو رسول اﷲﷺ فہذا غایۃ الوصلہ وہو المعبر عنہ بالاتحاد بلفظہ ولنعم ما قیل‘‘
۱؎ اخلاق انبیاء سے گومشابہت حاصل ہوجاتی ہے لیکن جو کمال مشبہ بہ میں ہے مشبہ کو حاصل نہیں ہوتااور نہ وہ اخلاق فاضلہ جو نبی کی ذات میں مجموعی طورپر موجود ہیں اس کی ذات میں ظاہر ہوسکتے ہیں کیونکہ تمام اخلاق کاملہ کا نبی کی ذات میں ایسے طور پر جمع ہونا۔ جو دوسرے کی ذات میں اس کمال اور حصر کے ساتھ جمع ہونا محال ہو۔ نبی کا معجزہ ہے اور معجزہ وہی ہے جو دوسرا انسان اس کے مقابلہ سے عاجز ہو۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ نے اعتقاد صحیح میں اس مسئلہ کی روشن تقریر درج کی ہے۔