آیت مذکورہ بالا میں ’’والبعث بعد الموت‘‘ یعنی مرنے کے بعد جی اٹھنے کا ذکر نہیں آیا۔ اس لئے اس مضمون کی آیت دوسری جگہ سے لکھی جاتی ہے: ’’ثم انکم بعد ذلک لمیتون۔ ثم انکم یوم القیمۃ تبعثون (مؤمنون:۱۵،۱۶)‘‘ {پھر تم اس کے بعد یقینا مرنے والے ہو۔ پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جائو گے۔} اس مضمون کی اور بہت سی آیات آئی ہیں۔ جن کے اندراج کی یہاں گنجائش نہیں۔
رہا ’’ایمان بالقدر‘‘ کا ثبوت تو اس کے متعلق بھی کئی آیات شریفہ ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ’’وان تصبہم حسنۃ یقولوا ہذہ من عند اﷲ ج وان تصبہم سیئۃ یقولوا ہذہ من عندک قل کل من عند اﷲ (نسائ:۷۸)‘‘ {اور اگر ان کو بھلائی پہنچتی ہے، کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر ان کو دکھ پہنچتا ہے کہتے ہیں یہ تیری وجہ سے ہے۔ کہو سب اللہ ہی کی طرف سے ہے۔} اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ بھلائی، برائی یا دکھ سکھ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے اور والقدر خیرہ وشرہ من اﷲ تعالیٰ کے یہی معنی ہیں۔
نص کی موجودگی میں حدیث شریف کا پیش کرنا، تحصیل حاصل ہے۔ مگر تبرکاً حضورﷺ کا ارشاد بھی سن لیجئے: ’’عن ابی ہریرہؓ قال کان رسول اﷲﷺ یوم بارزا للناس فاتاہ رجل فقال ماالایمان قال الایمان ان تؤمن باﷲ وملائکتہ وبلقائہ ورسلہ وتؤمن بالبعث‘‘ {ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن نبیﷺ لوگوں کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ یکا یک آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، فرشتوں پر اور (آخرت) میں اللہ کے ملنے پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائو اور قیامت کا یقین کرو۔} (بخاری ج۱، کتاب الایمان، ص۱۲، مطبوعہ مصر)
یہی حدیث ترمذی میں حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے: ’’قال یا محمد ما الایمان قال ان تؤمن باﷲ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر والقدر خیرہ وشرہ‘‘{اس نے کہا: اے محمدﷺ! ایمان کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر ایمان لائو اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر اور قیامت کے دن پر اور تقدیر پر۔} (ترمذی، مترجم، جلد دوم، ص۲۲۷)
یہ عقائد ہیں جو اصل الاصول ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے مگر مرزا