کیونکہ ایک آیت قرآنی کا انکار جملہ قرآن کے انکار کے مساوی ہے اور قرآن کا انکار انکار رسالت کے ہم دوش ہے اور ان کا رسالت میں خدا کا انکار لازم ہے۔ ا سلئے لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ!کا اعتراف باطل ہوگیا۔
حضرت علیؓ مثیل ہارون علیہ السلام ہیں لیکن نبوت کے مدعی نہیں
اور آنحضور علیہ السلام نے حضرت علی کو حضرت ہارون سے جو غیر تشریعی نبی تھے نسبت اور مماثلت دے کر آخر میں یہ جملہ فرمایا: الا انہ لا نبی بعدی یعنی غیر تشریعی نبوت جیسی حضرت ہارون کو ملی تھی۔ میرے بعد ختم ہے اور حضرت علیؓ باوجود یکہ بروزی اور ظلی طور پر حضرت ہارون کے مثیل تھے۔ لیکن چونکہ آنحضرتﷺ کے بعد ہر طرح کی نبوت کا سلسلہ مسدود ہے اس لئے آپ نے فرمایا: ’’الا انی لست بنبی ولا یوحیٰ الیّ ولکنی اعمل بکتاب اﷲ وسنۃ نبیہ ما استعطت (شفاء ص۱۹۴)‘‘ یعنی حضرت علی کا قول ہے کہ میں پیغمبر نہیں اور نہ مجھے وحی آتی ہے لیکن میں حتیٰ الامکان کتاب اللہ اور سنت رسول اﷲﷺ پر عامل ہوں۔
باب وحی آنحضرتؐ کے بعد قطعاً مسدود ہوچکا ہے ابو بکر صدیقؓ آنحضرتؐ کے بعد نزول وحی کی نفی کرتے ہیں
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خطبۂ خلافت میں بتصریح فرمایا ہے کہ مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی اور آنحضرتﷺ مورد وحی تھے اس لئے مجھ سے غلطی کا صادر ہونا ممکن ہے۔ مگر آنحضرتﷺ خطا سے محفوظ اور شیطان سے معصوم تھے: ’’اخرج احمد عن قیس بن ابی حازم قال قال ابو بکر الصدیقؓ لئن اخذتمونی بسنۃ نبیکم ما اطیقہا ان کان لمعصوما من الشیطان وان کان لینزل علیہ الوحی من السمائ‘‘ یعنی اگر تم مجھ کو اپنے نبی کی سنت سے گرفت کرو گے تو مجھے اس کی کماحقہ بجاآوری کی طاقت نہیں۔ آنحضرتﷺ شیطان سے معصوم تھے اور آپ پر آسمان سے وحی نازل ہوتی تھی مگر مجھے یہ کمالات حاصل نہیں: ’’اخرج ابن سعد عن الحسن البصری انکم ان کلفتمونی ان اعمل فیکم بمثل عمل رسول اﷲﷺ لم اقم بہ کان رسول اﷲﷺ عبداً اکرمہ اﷲ بالوحی وعصمہ الا وانما انا بشروا لست بخیر من احدکم ‘‘ ابن سعد نے حضرت حسن بصری سے ابو بکر صدیق کا بیان اس طرح نقل کیا ہے کہ اگر مجھ کو یہ تکلیف دو گے کہ میں تمہارے درمیان ایسی چال چلوں جیسے رسول اﷲ چلتے تھے میں اس کی کماحقہ پابندی نہ کرسکوں گا۔ حضرت خدا کے مکرم بندہ