کی استدارت کا خیال رکھتے ہوئے آفتاب یا مہتاب سے مماثلت درست بیٹھتی ہے۔
اور رسول خداﷺ کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں کے سایہ تلے چھپایا اور دشمنوں کے زور آور حملوں سے انہیں بچایا اور پیغام واﷲ یعصمک من الناس سنایا وسیکفیکہم اﷲ اور انا کفیناک المستہزئین کا مژدہ بتلایا اور اس نے آنحضرت کی ذات ستودہ صفات کو تیر آبدار بنایا کہ جیسے تیر دشمن پر غلبہ پانے کا ایک آلہ ہے۔ اسی طرح حضور کی ذات غلبہ بر اعداء کا وسیلہ ہے صحابہ کہتے ہیں: ’’کنا اذا حمی الوطیس القینا برسول اﷲﷺ‘‘ دشمنوں کی حشمت وشوکت کو حضور کے وجود نے زائل کردیا اور اپنی ترکش میں مجھے چھپا رکھا تاکہ آخر پر مجھے ظاہر کیا جائے اور نبیﷺ کو خدا نے سب سے اوّل پیدا کیا اور آخری وقت تک محفوظ رکھا اور آخر میں دنیا میں بھیجا۔ قاضی عیاضؒ نے شفا میں تحریر فرمایا ہے: ’’وسمی اﷲ تعالیٰ نبیۃ محمدﷺ بالفاتح فی حدیث الاسراء الطویل من روایۃ الربیع بن انس عن ابی العالیۃ وغیرہ عن ابی ہریرۃ وفیہ من قول اﷲ تعالیٰ وجعلتک فاتحاوخاتما وفیہ من قولہ علیہ الصلوۃ والسلام فی ثناء علی ربہ وتعدید مراتبہ ورفع لی ذکریٰ وجعلنی فاتحا وخاتما ثم قال فی معناہ اقوالا اخر المبدء المقدم فی الانبیاء والخاتم لہم کما قال علیہ السلام کنت اوّل الانبیاء فی الخلق واٰخرہم فی البعث‘‘ یعنی خدا نے اپنے نبی کا نام فاتح قرار دیا۔ ابو العالیہؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ سے بسلسلہ اسناد ربیع بن انس یونہی نقل کیا ہے اور اس سیاق متن میں خدائے تعالیٰ کا قول جناب نے ذکر فرمایا ہے کہ اس نے مجھے سب سے اول پیدا کیا اور تاآخر چھپا رکھا اور سب سے پیچھے مجھے دنیا میں مبعوث کیا اور بعد ازاں خدا کی ثناء کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نے میرا شہرہ بلند کیا اور مجھے تمام سے پہلے بنایا اور سب سے آخر ظاہر کیا اور حدیث: ’’کنت اول الانبیاء فی الخلق واٰخرہم فی البعث‘‘ اس مضمون کی موئید ہے۔
انجیل متی کی بشارت
اور انجیل متی باب ۱۹ میں ہے کہ: ’’آسمان کی بادشاہت اس گھر کے مالک کی مانند ہے جو سویرے نکلا تاکہ اپنے انگو ری باغ میں مزدور لگائے اور اس کے مزدوروں سے ایک دینار روز ٹھہرا کر انہیں اپنے باغ میں بھیج دیا۔ پھر دن چڑھے کے قریب نکل کر اس نے اوروں کو بازار میں بے کار کھڑے دیکھا اور ان سے کہا تم بھی باغ میں چلے جائو جو واجب ہے تمہیں دوں گا پس وہ چلے گئے۔ پھر اس نے دوپہر اور تیسری پہر کے قریب نکل کر ویسا ہی کہا اور کوئی ایک گھنٹہ دن رہے پھر