نکل کر اوروں کو کھڑے پایا اور ان سے کہا کہ تم کیوں یہاں تمام دن بیکار کھڑے رہے انہوں نے اس سے کہا اس لئے کہ کسی نے ہم کو مزدوری پر نہیں لگایا۔ اس نے ان سے کہا کہ تم بھی باغ میں چلے جائو۔ جب شام ہوئی تو باغ کے مالک نے اپنے کارندے سے کہا کہ مزدوروں کو بلا اور پچھلوں سے لے کر پہلوں تک انہیں مزدوری دے دے جب وہ آئے جو گھنٹہ دن رہے تو انہیں ایک ایک دینار ملا جب پہلے مزدور آئے تو انہوں نے یہ سمجھا کہ ہمیں زیادہ ملے گا اور ان کو بھی ایک ایک دینار ملا۔ جب ملا تو گھر کے مالک سے یہ کہہ کر شکایت کرنے لگے ان پچھلوں نے ایک ہی گھنٹہ کام کیا اور تو نے انہیں ہمارے برابر کردیا۔ جنہوں نے دن بھر کا بوجھ اٹھایا اور سخت دھوپ سہی اس نے جواب دے کر ان میں سے ایک سے کہا۔ میاں میں تیرے ساتھ بے انصافی نہیں کرتا۔ کیا تیرا مجھ سے ایک دینار نہیں ٹھہرا تھا جو تیرا ہے اٹھالے اور چلاجا۔ میری مرضی یہ ہے کہ جتنا تجھے دیتا ہوں اس پچھلے کو بھی اتنا ہی دوں۔ کیا مجھے روا نہیں کہ اپنے مال کو جو چاہوں سو کروں۔ یا تو اس لئے کہ میں نیک ہوں تو بری نگاہ سے دیکھتا ہے اس طرح آخر اول ہوجائیں گے۔‘‘
حدیث مطابق مضمون انجیل
آنحضرتﷺ نے پیش گوئی مندرجہ صدر کا مصداق اپنی امت کو قرار دیا ہے چنانچہ بشارت ہذا کا خلاصہ مضمون اپنے کلمات میں اخذ کرلیا ہے۔ بخاری نے صحیح میں اور محمد نے موطا میں حضرت عبداﷲ بن عمر سے مرفوعاً روایت کیا ہے: ’’انما اجلکم فی اجل من خلا من الامم ما بین صلوٰۃ العصر الی مغرب الشمس وانما مثلکم ومثل الیہود والنصاریٰ کرجل استعمل عمالا فقال من یعمل لی الی نصف النہار علی قیراط قیراط فصملت الیہود والی نصف النہار علیٰ قیراط قیراط ثم قال میں یعمل لی الیٰ صلوٰۃ العصر علیٰ قیراط قیراط ثم قال ومن یعمل من صلوٰۃ العصر الیٰ المغرب الشمس علی قیراطین قیراطین الافانتم الذین یعملون من صلوٰۃ العصر الی مغرب الشمس الالکم الاجر مرتین ففضبت الیہود والنصاریٰ فقالوا نحن اکثر عملا واقل عطاء قال اﷲ تعالیٰ فہل ظلمتکم من حقکم شیئاً قالو لا قال اﷲ تعالیٰ فانہ فضلی اعطیہ من شئت‘‘ {یعنی تمہاری میعاد سابقہ امتوں کے مقابلہ میں اتنی ہے جیسا عصر سے مغرب تک وقت کی ہے اور تمہارا اور یہود کا حال بالکل ایسے شخص سے ملتا ہے جس نے باغ میں مزدور لگائے اور آواز دیا کہ کون صبح سے دن ڈھلتے تک ایک ایک قیراط کے مقابلہ میں کام کرے گا۔ یہود نے اس کا کام دوپہر تک ایک ایک قیراط لے کر