رعیت کے حقوق کی نسبت خود باز پرس کرے گا۔ اپنے حقوق کی کمی وبیشی کا چنداں خیال نہ کرو۔}
حدیث دوم
مسلم نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:’’فضلت علی الانبیاء بست۔ اعطیت جوامع الکلم ونصرت بالرعب واحلت لی الغنائم وجعلت لی الارض مسجد او طہورا وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النّبییون(مسلم شریف ج۱ ص۱۹۹)‘‘
دوسرے انبیاء پر مجھے چھ وجوہ سے فضیلت حاصل ہے مجھے خدا نے جامع کلمات عطا کئے ہیں کہ مختصر عبارت بے شمار مقاصد پر حاوی ہوتی ہے اور ایک ماہ کی مسیرۃ تک دشمن میرے رعب سے لرزتے ہیں۔ یہ خدا کی میری ساتھ امداد ہے اور غنیمت کا مال سابقہ امتوں کے لئے حلال نہ تھا کیونکہ ان کی دعوت ایک قوم یا علاقہ پر محصور ہوتی تھی۔ لیکن آنحضرت کی دعوت تمام دنیا کے لئے عام تھی اور ساری دنیا پر اس قوم کا اقتدار ہونا لازم تھا اور یہ کسی طرح واجب نہ تھا کہ فوجی کارکن اماکن بعیدہ اور بلاد شاسعہ سے نان وخورش اور ضروری نفقہ حاصل کرنے کے لئے ملک عرب میں واپس جائیں۔ اس لئے آسانی کی خاطر خدا نے ایسا حکم دیا جو اس امت کے مناسب حال تھا اور مال غنیمت کو ان کے واسطے حلال کیا گیا۔ پہلی امتوں پر لازم تھا کہ وہ سوائے اپنی معبدکے کسی دوسری جگہ نماز ادا نہ کریں اور وضوء ان کے لئے بہرحال شرط تھا لیکن میرے لئے خدا نے روئے زمین کو مسجد بنا دیا اور عذر کے وقت تیمم کا حکم صادر کیا اور مجھ کل خلقت کی جانب پیغمبری دیکر بھیجا گیا۔ عالم ملائکہ اور جن اور انسان میری دعوت میں شامل ہیں اور نبیوں کا سلسلہ میری ذات پر ختم ہوگیا ہے۔
حدیث سوم
مسلم نے روایت کیا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے جناب سرور کائناتﷺ کا بیان اس طرح نقل کیا ہے: ’’کان النّبیﷺ یسمی لنا نفسہ اسماء فقال انا محمد وانا احمد وانا المقفی وانا الماحی ونبی التوبۃ ونبی الرحمتہ‘‘
(مسلم شریف ج۲ ص۲۶۱)
{یعنی آنحضرتﷺ ہمارے سامنے اپنے چند اسماء بیان فرماتے تھے یعنی میں محمد ہوں اور میرا دوسرا نام احمد بھی ہے اور تیسرا نام مقفی اور چوتھا نام ماحی یعنی کفروشرک اور ضلالت کا نابود کرنے والا ہوںاور میں نبی رحمت اور نبی توبہ بھی ہوں۔}یہ چھ نام مجھے عطا ہوئے ہیں۔ علامہ