لیکن سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کا قول ہے کہ یہ لفظ منسوخ ہوکر ساقط ہوگیا ہے۔ گویا لفظ ساقط کا حکم الفاظ مذکورہ سے جدا اور متفاوت ہوگیا ہے اور محدث کی وحی تلبیس شیطانی سے رسول ونبی کی طرح منزہ نہیں ہوتی۔
جب کوئی لفظ قرآن سے بصیغہ نسخ ساقط ہوجائے تو اس کا حکم تبدیل ہوجاتا ہے جیسے آیت ’’فمن کان منکم مریضاً او علیٰ سفر فعدۃ من ایام اخر‘‘ میں متتابعات کا لفظ بھی نازل ہوا تھا جس کا یہ اثر تھا کہ ہر ایک قضاء کنندہ صیام علی الترتیب اور متواتر روزی رکھتا تھا۔ لیکن جب یہ لفظ ساقط ہوگیا تو قضاء کے حکم میں تبدیلی واقع ہوئی اور کہا گیا: ’’ان شاء فرق وان شاء تابع علیٰ ہذا القیاس‘‘ جب محدث کا لفظ ساقط ہوگیا تو اس کی وحی اور الہام کا حکم انبیاء کی وحی سے بالکل مختلف ہوگیا۔ انبیاء کی وحی تلبیس شیطانی سے منزہ کردی گئی۔ برخلاف محدث کے کہ اس کی وحی دخل شیطانی سے پاک نہیں۔
ضمن چہارم… جماعت مرزائیہ اس موقع پر آیت ’’وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا‘‘ سے بھی استدلال کیا کرتی ہے۔ اور کہتی ہے کہ نزول عذاب بعثت نبی کی علامت ہے اور یہ عادت اﷲ جاری ہے کہ جس وقت دنیا میں کوئی نذیر ظاہر ہو اور اس کی اتباع سے قوم منحرف ہو تو خدا اس کی تصدیق اور قوم کی تنبیہ کے لئے عذاب نازل کرتا ہے مگر یہ دعوائے بروئے آیت بالکل محاورات عرب اور قواعد صرفیہ اور لغویہ کے خلاف ہے کنا ماضی معلوم کا صیغہ ہے جو خدائے تعالیٰ کی گذشتہ عادت کو ظاہر کرتا ہے کہ زمانہ ماضی میں وہ ایسا کرتا رہا ہے کہ جب قوم نے نبی کا انکار کیا تو خدا نے تازیانہ عذاب سے انہیں بیدار کیا یا بالکل ان کا استحصال کردیا۔ آئندہ زمانہ پر آیت ہذا کا کوئی اثر نہیں بلکہ سورہ احزاب کی حسب ذیل آیت: ’’ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین (احزاب:۴۰)‘‘ آئندہ زمانہ پر حاوی ہے۔
وما کنا معذبین کے معنے
لہٰذا حضور علیہ السلام کی بعثت سے بعد کا زمانہ ’’وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا‘‘ کے ماتحت داخل نہیں کیونکہ آیت ختم نبوۃ نے آئند ہر زمانہ کے لئے انبیاء کی بعثت کو مسدود کردیا ہے لہٰذا قرآن کی دوسری آیت خود پہلی آیت کے یہی معنے بتلا رہی ہے کہ اس کا اثر زمانہ قبل بعثت رسول کریم سے وابستہ ہے جماعت مرزائیہ جن معنے کی شیداء ہے وہ آیت ختم نبوۃ سے معارض ہیں اور آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے: ’’انما نزل القرآن یصدق بعضہ بعضا فلا تضربوا کتاب اﷲ بعضہ ببعض‘‘ یعنی قرآن ایک دوسرے حصہ کا مصدق نازل ہوا ہے تم