جارہے ہیں بتلائو تو سہی کہ اگر تم کسی میدان میں فروکش ہو جس کے دو کنارے ہیں ایک سرسبز اور دوسرا خشک جس کنارے تم اپنے شتر چرنے چھوڑو گے وہ بحکم تقدیر ہوگا۔ (اگر کو ئی خشک کنارہ ترک کرکے سبز خطہ اختیار کرے تو یہ تقدیر کی مخالفت نہیں بلکہ حزم واحتیاط اور تقدیر کی موافقت ہے۔) اتنے میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ جو کسی ضروری کام کے لئے مجلس سے غائب تھے آپہنچے اور یہ حدیث سنائی کہ جہاں طاعون واقع ہو وہاں جائو نہیں اور اگر تمہارے شہر میں طاعون پڑ جائے تو بھاگو نہیں۔ حضرت عمرؓ حمد خدا بجالائے اور مدینہ کو کوچ کیا۔ امام مالک نے یہ ساری سرگزشت حضرت ابن عباس عبداللہ بن عامر اور سالم بن عبداللہ سے روایت کی ہے۔ طاعون عمواس سیف بن عمرو کی تحریر کی رو سے ۱۸ھ میں اس کا ظہور ہوا اور عمواس عم واسار کا مخفف ہے چونکہ اس طاعون نے لوگوں کو بدحال کردیا تھا اس لئے اس نام سے نامزد ہوئے۔}
اور کوفہ میں باثناء ۴۹ء طاعون ظاہر ہوئی اور طاعون جارف ۶۵ھ لغائب ۸۰ھ میں نمودار ہوئے اور حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ۶۶ھ میں مصر میں عام طاعون اپنا کام کررہی تھی اور بصرہ میں دوسری بار طاعون پھیلی جو طاعون فتیات کے نام سے نامزد ہے ازاں بعد طاعون اشراف واسطہ میں رونما ہوئی ان پانچ طاعونوں کی تصریح مدائنی نے تاریخ میں ذکر کی ہے علاوہ ان کے ہرزمانہ میں بہت دفعہ طاعون اپنا رنگ دکھلا چکی ہے۔
طاعونات کا وقتاً فوقتاً ظہور
شام میں طاعون عمواس کے بعد دوسری بار طاعون نے کھلبلی مچا دی۔ پھر طاعون عدی بن ارطاۃ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد میں ۱۰۰ھ میں واقع ہوئی اور پھر تیسری بار شام میں باثناء ۱۰۷ھ و۱۱۵ھ طاعون نے لوگوں کی حالت خستہ کردی کذا ذکر ابن کثیر فی تاریخہ اور مراۃ الزمان میں بیان کیا گیا ہے کہ ۱۶ھ میں بعلاقہ عراق وشام طاعون کا زور شور تھا اور بصرہ میں تیسری چوتھی بار طاعون غرابا اور مسلم بن قتیبہ وارد ہوئی اور سال ۱۳۱ھ کا دور دورہ تھا کہ ماہ رجب وشعبان ورمضان میں تین ماہ متواتر طاعون نے سخت حملہ کیا۔ بنو امیہ کا دور تھا۔ طاعون کا سمندر اس عہد میں موجزن رہا ۲۴۹ھ میں عراق کے علاقہ میں طاعون نے خلق اللہ کو ستایا اور ۲۰۸ھ کا دوران تھا جبکہ اذر بے جان اور بروعہ میں اس بیماری نے اپنے دانت تیز کئے اور ۲۰۹ھ میں ببلاد فارس اور ۲۳۱ھ میں بعلاقۃ بغداد اور ۳۲۴ھ میں ببلدہ اصفہان اور ۳۴۶ھ میں بنواحی عراق اور ۴۰۶ھ میں بشہر بصرہ اور ۴۲۳ھ میں ببلاد ہندوستان وعجم وعلاقہ جبل وباء نے خلق اﷲ کی تباہی کی اور ۴۲۵ھ میں شیراز سے بصرہ اور بغداد تک پہنچی اور ۴۳۹ ھ میں موصل وجزیرہ اور بغداد پر اس نے اپنا تسلط جمایا اور پھر ۴۴۸ھ میں