ہہنا من مشیخۃ قریش من مہاجرۃ الفتح فددعوتہم فلم یختلف علیہم منہم اثنان فقالوا نریٰ ان ترجع بالناس ولا تقدمہم علیٰ ہذا الوباء فنادی عمر بن الخطاب فی الناس انی مصبح علی ظہر فاصبحو علیہ فقال ابو عبیدۃ افرارا من قدر اﷲ قال عمر لو غیرک قالہا یا اباعبیدۃ نعم نفر من قدر اﷲ الیٰ قدر اﷲ ارایت لو کان لک ابل فہبطت وادیالہ عدوتان احدہما مخصبتہ والاخریٰ جدبۃ الیس ان رعیت الخصبتہ رعیتہا بقدر اﷲ وان رعیت الجدبۃ رعتیہا بقدر اﷲ فجاء عبدالرحمن بن عوف وکان غائبا فی بعض حاجۃ فقال ان عندی من ہذا علما سمعت رسول اﷲﷺ علیہ وسبیل یقول اذا سمعتم بہ بارض فلا تقدموا علیہ وان وقع بارض فانتم بما فلا تخرجو افرار امنہ قال ابن عباس فحمد اﷲ عمر ثم انصرف رواہ مالک عن عبداللہ بن عامر نحو وعن سالم بن عبداللہ مثل ذلک‘‘
{حضرت عمر بن خطابؓ نے سفر شام کا عزم کیا۔ سرغ پر جو ایک مقام کا نام ہے پہنچتے ہی جرنیلان لشکر ابو عبیدہ وغیرہم کی زبانی ملک شام میں طاعون کی زور کی خبر سنی حضرت ابن عباسؓ کے بیان کی رو سے حضرت فاروقؓ نے مہاجرین اولین کو بلا کر ان سے مشورہ کیا کہ وباء کا شام میں زور وشور ہے اب کس تجویز پر عمل کرنا چاہئے۔ پیش قدمی کریں یا مدینہ کو رخ بدلیں۔ مہاجرین نے کوئی قطعی رائے جس پر ان کا اتفاق ہو نہ بتلائی اور مختلف رائے ظاہر کرنے لگے۔ کوئی کہتا تھا واپسی مناسب ہے کیونکہ سرور کائنات کے بہترین اصحاب اور چیدہ بزرگ آپ کے ہمراہ ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ آپ ان کی زندگی کو خطرے میں ڈالیں اور وہاں وباء میں ان کی عزیز جانیں دے دیں۔ اور دو سری بولے واپس جانا ٹھیک نہیں۔ پھر انصار کو بلایا وہ بھی مہاجرین کے رویہ پر چلے اور ان میں بھی ویسے ہی اختلاف ہوا جیسے مہاجرین میں تھا۔ پھر ان کی مجلس کو برخاست کردیا۔ اور مشائخ، قریش کو بلایا۔ ان میں کوئی اختلاف نہ ہوا اور بالاتفاق یہ رائے دی کہ واپس مدینہ ہونا چاہئے اور وباء میں اپنا قدم نہ رکھنا چاہئے۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے نداء عام کردی کہ کل صبح ہم کوچ کریں گے۔ ابو عبیدہؓ نے اعتراض کیا کہ آپ تقدیر الٰہی سے بھاگتے ہیں عمر فاروقؓ نے جواب دیا کہ اگر آپ کے سوا کوئی دوسرا ایسے کلمات کہتا تو چنداں قابل اعتراض نہ تھا لیکن تمہارے لئے یہ زیبا نہیں میں مسئلہ تقدیر کو مثال دے کر سمجھا دیتا ہوں۔ جس روش کو ہم باختیار خود پسند کریں گے۔ وہی ہمارے حق میں تقدیر ہوجائے گی۔ اس طرح ہم تقدیر کی ایک رخ سے دوسری رخ کی طرف