اور ابو دائود نے ابو مالک اشعری سے روایت کیا ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’ان اﷲ عزوجل اجارکم من ثلث خلال ان لا یدعوا علیک نبیکم یتحل کموا جمیعا وان لا یظہر اہل الباطل علیٰ اہل الحق وان لا تجتمعوا علیٰ ضلالۃ‘‘
{خدا نے تم کو تین مصیبتوں سے امن میں رکھا ہے تمہارے خلاف تمہارا پیغمبر بددعا نہ کرے گا کہ تم سب فنا ہوجائو اور اہل باطل حق پرستوں پر غلبہ نہ پائیں گے۔ اور گمراہی پر تم متفق نہ ہوگے۔}
یعنی آنحضرت کی امت پر ایسا عذاب نہ آئے گا کہ تمام دنیا سے نابود ہوجائیں۔ البتہ بسا اوقات بطور تازیانہ عبرت انواع واقسام کے عذاب آتے رہیں گے۔ خود آنحضرتﷺ نے امت میں ظہور عذاب کی خبریں سنائی ہیں جس قدر مصائب وآلام امت پر آتے ہیں وہ پہلے دن سے پیغمبر خدا کی خبر کی تصدیق ہے۔ نہ کہ مرزا قادیانی کے انکار کی وجہ سے یہ عذاب نازل ہورہے ہیں۔ اگر طاعون کو امت کے لئے عذاب مانا جائے تو یہ حضرت کی پیش گوئی کا نتیجہ ہے۔ مرزا قادیانی کے انکار سے اس کا تعلق نہیں۔
ضمن سوم… طاعو ن کا ظہور زمانہ ہذا سے قبل بارہا ہوچکا ہے۔ آنحضرتﷺ کے عہد میں مدائن میں طاعون واقع ہوئی اور بعہد خلیفہ ثانی عمر فاروقؓ شام میں طاعو ن عمو اس رونما ہوئی۔ آپ سفر شام کا عزم کرکے جارہے تھے کہ راستہ میں ابو عبیدہؓ نے ملک میں وبائے طاعون کی خبر سنائی آپ نے تمام صحابہ کو مدعو کرکے مجلس شوریٰ نے قائم کی کہ شام کی طرف قدم بڑھائیں یا واپس مدینہ جائیں چنانچہ مؤطا مالک میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے۔
حضرت عمرؓ کے عہد میں طاعون کا ظہور
’’ان عمر بن الخطاب خرج الی الشام حتی اذا کان بسرغ لقیہ امراء الاجناد ابو عبیدۃ بن الجراح واصحابہ فاخبروہ ان الوباء قد وقع بالشام قال ابن عباس فقال عمر بن الخطاب ادعی لی المہاجرین الاولین فدعاہم فاستشارہم واخبرہم ان الوباء قد وقعت بالشام فاختلفوا فقال بعضہم قد خرجت لامرولا نریٰ ان ترجع وقال بعضہم معک بقیۃ الناس واصحاب رسول اﷲﷺ ولا نری ان تقدمہم علیٰ ہذہ الوباء فقال عمر ارتفعوا عنی ثم قال ادع لی الانصار فدعوتہم فاستشارہم فسلکوا سبیل المہاجرین واختلفوا لا ختلافہم فقال لہم ارتفعوا عنی ثم قال ادع من کان