مرے اے خداوند تو آل معاذ کو اس رحمت سے حصہ عنایت کر۔ پھر منبر سے اترے اور اپنے بیٹے عبدالرحمن کے پاس آئے بیٹے نے کہا۔موت تیرے رب کا قطعی حکم ہے اسمیں شک نہ کیجئو تو حضرت معاذ نے فرمایا بیٹا! مجھے انشاء اللہ صابر جماعت میں سے پائو گے۔ امام احمد کی دوسری روایت میں حضرت معاذ کا سلسلہ کلام اس طرح منقول ہے کہ میں نے حضرت سے یہ حدیت سنی کہ ایک زمانہ عنقریب آنے والا ہے کہ تم ہجرت کرکے شام میں پہنچو گے۔ وہاں ایک بیماری ہوگی جس کی شکل ایک بڑی پھنسی کے مشابہ ہوگی۔ خدائے تعالیٰ وہاں کے رہنے والوں کو طاعون کے ذریعہ درجہ شہادت عنایت کرے گا۔ اور ان کے اعمال کا تزکیہ کرے گا۔ اے خداوند! اگر رسولﷺ سے سنے ہیں تو اس کو اور اس کے اہل بیت کو طاعون سے کامل حصہ عطا فرما۔ پس ان کے سب متعلقین طاعون سے شہید ہوگئے۔ حضرت معاذؓ فرماتے تھے کہ مجھے اس نعمت کے عوض اگر شتران سرخ دئیے جائیں تو یہ تبادلہ مجھے خوش معلوم نہ ہو۔}
چونکہ طاعون رحمت ہے اور آنحضرت کی دعا کا ثمر اس لئے حضرت معاذ نے یہ درخواست کرکے اس رحمت کو خدا سے حاصل کیا۔ اس بناء پر علماء میں یہ اختلاف پیدا ہوگیا ہے کہ جہاں طاعون واقع ہو وہاں کے باشندے اس کو دفعیہ کے لئے دعا کریں یا نہ کریں۔ شارح اشباہ والنضائر نے رفع طاعون کے لئے دعا کرنے کو ممنوع لکھا ہے۔
’’ولا شک ان الطاعون من اشد النوازل اقول ہو وان کان من اشد النوازل الا انہ رحمۃ وشہادۃ فلا یطلب رفعہما‘‘
{یعنی طاعون گو اشد درجہ کی مصیبت ہے لیکن آخر کار وہ رحمت اور شہادت ہے اس لئے ان کے رفع کی دعا نہ کرنی چاہئے۔ }
اور مؤـلف اشباہ کا جواب شارح کی رائے کے مخالف ہے۔
’’قال سئلت عنہ فی طاعون سنۃ تسع وستین وتسعمائۃ بالقاہرۃ فاجبت بانہ لم ارہ صریحا ولکن صرح فی الغایۃ وعزا الشمنی الیہا بانہ اذا نزل بالمسلمین ناذلۃ قنت الامام فی صلوٰۃ الفجروہو قول الثوریٰ واحمد وقال جمہور اہل الحدیث القنوت عند النوازل مشروع فی الصلوٰۃ کلہا وفی فتح القدیران مشروعیۃ القنوت للنازلۃ مستمرۃ لم ینسخ وبہ قال جماعۃ من اہل الحدیث وحملوا علیہ حدیث ابی جعفر عن انسؓ عنہا مازال…الخ!‘‘
{یعنی مؤلف علامہ کا قول ہے کہ اس طاعون کے متعلق جو ۹۶۹ھ میں قاہرہ میں واقع