بہکانے سے گناہ کرتے ہو اور اس کے باعث طاعون پھیلتی ہے۔ گویا استعارۃً یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنوں نے گناہ کے نیزے سے تمہارا شکار کیا۔ اور دوسری روایت میں حضرت عائشہؓ سے ثابت ہے: ’’لاتغنی امتی الابالطعن والطاعون قلت یا رسول اﷲ ہذا الطعن قدعرّ فناہ فما الطاعون قال غدۃ کغدۃ البعیر المقیم بہا کالشہید والفارمنہ کالفارمن الزحف رواہ احمد وابو یعلیٰ والطبرانی والبزارو اسانیدہم حسان‘‘ گویا طاعون ان روایات مذکورہ کے اقتضاء سے آنحضرت کی دعا اور امت کے لئے رحمت اور شہادت کی بشارت ہے۔ اسی بناء پر حضرت معاذ نے ملک شام میں خطبہ کے ضمن میں طاعون کا تذکرہ کیا اور کہا:
’’انہا رحمۃ ربکم ودعوۃ نبیکم وقبض الصالحین قبلکم اللہم اجعل علیٰ اٰل معاذ نصیبہم من ہذہ الرحمۃ ثم نزل عن مقامہ ذلک فدخل علیٰ عبدالرحمان بن معاذ فقال عبدالرحمن الحق من ربک فلا تکونن من الممترین فقال معاذ ستجدنے ان شاء اللہ من الصابرین رواہ احمد باسناد جیدعن ابی منیب الاحدب ولا حمد فی روایۃ اخریٰ عن معاذ بن جبلؓ قال سمعت رسول اﷲﷺ یقول ستہاجرون الی الشام فتفتح لکم ویکون فیہ داء کالدمل او کالجرۃ یاخذ بمراق الرجل یستشہد اﷲ بہ انفسہم ویزکی بہ اعمالہم اللہم ان کنت تعلم ان معاذا سمعہ من رسول اﷲﷺ فاعطہ ہو واہل بیت الحظ الادخر منہ فااصابہم الطاعون فلم یبق منہم احد فطعن فی اصبعہ السبابۃ فکان یقول مایسرنی ان لی بہا بہاجر النعم‘‘ {یعنی طاعون تمہارے نبی کی دعا اور تمہارے رب کی رحمت۱؎ ہے۔ نیکو کار جو تمہارے پہلے ہے اس بیماری سے
۱؎ طاعون بدکاروں کے لئے عذاب ہے جو معصیت اور حکم عدولی سے نازل ہوتی ہے۔ کسی نبی کا وجود اس کا موجب نہیں۔ چنانچہ بہت روایات اس مضمون کی موئید نذر قلم ہوچکی ہیں اور نیکو کاروں کے لئے رحمت اور شہادت ہے اور آں حضرتﷺ کی دعا اس کا موجب ہے۔ ’’اللہم اجعل فنا امتی قتلا فی سبیلک بالطعن والطاعون‘‘ بہرحال طاعون مرزا قادیانی کی تصدیق نہیں کرتی۔ بلکہ جناب سرور کائناتﷺ کی تصدیق کرتی ہے کہ ان کی پیش گوئیاں برآئیں اور دعا مستجاب ہوئی۔ مرزا قادیانی کے وجود سے طاعون کا صرف اتنا تعلق ہے کہ دعویٰ نبوت سے بنی آدم کے گناہوں میں کفر اکبر کا جو اشد گناہ ہے اضافہ ہوگیا اور جو فہرست میں کمی تھی جس نے عذاب کو روکا ہوا تھا پوری ہوگئی اور فوراً عذاب نازل ہوگیا اور زیادہ نہیں۔