میں اس کا ظہور ہوا۔ ان واقعات سے حسب ذیل نتیجہ مستنبط ہوا:
۱… جب نزول عذاب طاعون وغیرہ انکار نبی سے مخصوص نہ رہا بلکہ زنا کاری، معصیت الٰہی، حکم عدولی، ارتکاب فواحش بھی اس کے اسباب ہیں تو ظہور طاعون سے مرزا قادیانی کے دعویٰ کی تصدیق پر استدلال کرنا بالکل بے معنی ہے کیونکہ شرائع الٰہیہ میں تغافل کا روا رکھنا بھی غضب خدا کو نازل کرتا ہے اور اس سے طرح طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں جب تک احتمال ثانی کو بالکل دلائل شافیہ سے قطع نہ کیا جائے تب تک استدلال تام نہیں۔ قاعدہ یہ ہے: ’’اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال‘‘ کیا ضرورت ہے کہ ایک متنبی کاذب جس کی نبوت آثار اور شواہد سے ثابت نہیں خواہ مخواہ اس کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے بالتکلف طاعون کو اس کی رسالت کا شاہد قرار دیا جائے جو شامت اعمال بنی آدم کا نتیجہ ہے۔
حدیث قدسی میں ہے: ’’انما ہی اعمالکم احصیاہا علیکم فمن وجد خیرا فلیحمداﷲ ومن وجدشراً فلا یلومن الانفسہ‘‘ مولوی جلال الدین رومی کا قول ہے:
ابرنا یداز پے منع زکاۃ
وز زنا خیزد وبا اندر جہات
طاعون کا نزول جب ان کا نبی سے مخصوص نہ رہا بلکہ بسا اوقات گناہ اور معصیت بھی اس کا موجب ہے تو کبریٰ کلیہ نہ رہا۔ شکل اول کا کبریٰ جب کلیہ نہ ہو تو نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔
طاعون حضرت کی دعا ہے۔ طاعون بشارت ہے
۲… طاعون کا ظہور امت میں آنحضرتﷺ کی دعا سے ہوا ہے۔ آپ نے یہ دعا فرمائی تھی؟ ’’اللہم اجعل فناء امتی قتلا فی سبیلک بالطعن والطاعون رواہ احمد باسناد حسن والطبرانی فی الکبیرورواہ الحاکم من حدیث ابی موسیٰ وقال صحیح الاسناد (زواجر ج۲ ص۱۹۶)‘‘ اور استجابت دعا پر آنحضرتﷺ نے تنصیص بھی فرمائی ہے:’’صح عن ابی موسیٰ الاشعریؓ انہﷺ قال فناء امتی بالطعن والطاعون فقیل یا رسول اﷲ ہذا الطعن عرفناہ فما الطاعون قال وخزاعدائکم من الجن و فی کل شہادۃ رواہ حمد باسانید احدہا صحیح وابو یعلیٰ والبزارو الطبرانی‘‘ یعنی آں حضرتﷺ نے فرمایا جو دعائیں میں نے امت کے حق میں کی تھی وہ منظور ہوچکی۔ اس لئے میری امت یا نیزہ سے فنا ہوگی یا طاعون سے مرے گی۔ صحابہ نے حضرت سے دریافت کیا کہ طعن کی حقیقت تو ہمیں معلوم ہے لیکن طاعون کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا جو جنوں میں سے تمہارے دشمن ہے ان کے نیزے کی مار ہے یعنی تم ان کے