العرب الا دخلتہ ثم مدینۃ تکون بینکم وبین بنی الاصفر فیعذرون فیاتونکم تحت ثمانین غایۃ تحت کل غایۃ اثنا عشرا الفارواہ البخاری۔‘‘ یعنی قیامت سے پیشتر چھ علامات شمار کر اولاً میری وفات دوئم بیت المقدس کو اہل اسلام فتح کریں گے۔ ثالثاً طاعون کا پھوڑا نمودار ہوگا جیسے بکریوں کو رسائولیاں نکلتی ہیں۔ چہارم مال کثرت سے لوگوں کے قبضہ میں ہوگا یہاں تک کہ ایک بندہ خدا کو تین سو روپیہ ماہوار تنخواہ ملے گی۔ (آنحضرتﷺ کے زمانہ کے دینار کے حساب سے) اور نوصد روپیہ زمانہ حال کے حساب سے لیکن پھر بھی وہ ناراض اور خفا رہے گا۔ پنجم ایک فتنہ ملک عرب میں برپا ہوگا جس سے عرب کا کوئی گھر خالی نہ رہے گا۔ پھر تمہارے اور عیسائیوں کے درمیان ایک صلحنامہ قرار پائے گا جسے عیسائی توڑ ڈالیں گے اور اسی جھنڈوں کے ماتحت کثیر فوج لے کر حملہ کے لئے آئیںگے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ بارہ ہزار فوج ہوگی۔ اس طرح ساری فوج کی تعداد بارہ لاکھ ساٹھ ہزار ہوگی۔ اس حدیث کو غور سے پڑھو اور دیکھو آنحضرت نے اپنی امت میں ظہور طاعون کی پیش گوئی بیان کی ہے بلکہ طاعون کی ماہیت پر یہی روشنی ڈالی ہے پھر کیونکر سمجھا جائے کہ مرزا قادیانی کی خاطر طاعون ملک میں رونما ہوئی ہے۔ فقط
طاعون کا عذاب سابقہ قوموں پر بھی نازل ہوا
پہلی قوموں اور سالفہ جماعتوں پر فاحشہ کبریٰ کے ظہور سے عذاب طاعون بھیجا گیا اور وہ ایک گھنٹہ یادن میں ستر ہزار کی تعداد میں مارے گئے۔ اتنی سرعت ہلاکت قابل حیرت وتعجب ہے۔ حدیث میں ہے:
’’الطاعون رجز ارسل علیٰ طائفۃ من بنی اسرائیل او علیٰ من کان قبلکم فاذا سمعتم بہ بارض فلا تقدموا علیہ وان وقع بارض وانتم بہا فلا تخرجوا فرارا منہ متفق علیہ من حدیث اسامۃ بن زید وللبخاری عن عائشہ قالت سالت رسول اﷲﷺ عن الطاعون فاخبرنی انہ عذاب یبعثہ اﷲ علیٰ من یشاء وان اﷲ جعلہ رحمۃ للمومنین لیس من احد یقع الطاعون فیمکث فی بلدہ صابرا محتبسا یعلم انہ لا یصیبہ الا ما کتب اﷲ لہ الا کان لہ مثل اجرشہید‘‘ طاعون ایک عذاب تھا جو بنی اسرائیل یا کسی سابقہ جماعت پر بھیجا گیا۔ جب اس کی خبر تمہیں پہنچے کہ کسی سر زمین پر طاعون اپنا کام کررہی ہے۔ تو وہاں نہ جائو اور جس شہر میں تمہاری رہائش ہے اگر وہاں طاعون نمودار ہو تو بھاگو نہیں بلکہ قضاء وقدر کو سچے دل سے قبول