قطع رحمی موجب نزول عذاب ہے
اور بیہقیؒ اور احمدؒ نے حضرت ابو امامہ سے روایت کیا ہے: ’’بشربہم الخمر ولبسہم الحریر واتخاذہم القینات واکلہم الربا وقطیعتہم الرحم وخصلۃ نسیہا‘‘ جعفر ابو امامہ نے آنحضرت سے نزول عذاب کے حسب ذیل اسباب نقل کئے ہیں کہ خلق خدا شراب نوشی کرے گی۔ ریشم پہنے گی۔ سرود سنیں گی۔ سود خوری اور قطع رحمی ان کا وتیرہ ہوگا۔
زناکاری، سود خوری اور رشوت نزول عذاب کا موجب ہے۔
ابو یعلیٰ نے آنحضرت ﷺ کی حسب ذیل حدیث کو ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے:
’’نہیٰ رسول اﷲﷺ ان تشتریٰ الثمرۃ حتیٰ تطعم وقال اذا ظہر الزناء والربافی قریۃ فقد احلوا بانفسہم عذاب اﷲ رواہ الحاکم عن ابن عباس وصححہ وفی روایۃ ابی یعلیٰ عن ابن مسعود ماظہرفی قوم الزنا والربا الااحلوا بانفسہم عذاب اﷲ ولا حمد عن عمروا بن العاص مرفوعا ما من قوم یظہرفیہم الربا الااخذوا بالسنۃ وما من قوم یظہر فیہم الرشا الا اخذوا بالرعب‘‘ آں حضرتﷺ نے میوہ جات کی خرید سے منع کیا ہے جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہوجائیں اور نیز فرمایا کہ جب بدکاری اور سود خوری کسی شہر میں عام ہوجائے تو آبادی نے عذاب الٰہی کو اپنی ذات پر لازم کرلیا۔ حاکم نے اس روایت کو ابن عباس سے روایت کیا ہے اور ابو یعلیٰ کی روایت ابن مسعود سے بھی اس کے لگ بھگ ہے اور امام احمد نے حضرت عمرو بن عاص سے روایت کیا ہے جس قوم میں سود خوری کا چرچا ہوا۔ ان پر قحط کا عذاب آتا ہے اور جس قوم میں رشوت خوری عام ہو ان پر دشمن کا رعب ڈالا جاتا ہے۔
ظلم اور جھوٹی قسم موجب نزول عذاب ہے
’’اخرج البیہقی عن ابی ہریرۃؓ مرفوعاً لیس مما عصی اﷲ بہ ہو اعجل عقابا من البغی وما من شیء اطیع اﷲ فیہ اسرع ثوابا من الصلۃ والیمین الفاجرۃ تدع الدیار بلاقع۔‘‘ خدا کے معاصی میں کوئی جلد عذاب لانے والی خصلت ظلم سے بڑھ کر نہیں ۔اور جس کی ادائیگی میں انسان جلد سے جلد ثواب کا مستحق ہو۔ صلہ سے بڑھ کر نہیں۔ اور جھوٹی قسم کا وبال یہاں تک پہنچتا ہے کہ آبادی ویران ہوکر جھوٹی قسم کی شامت