نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ جب اہل ارض پر خدا کی نقمت نازل ہوتی ہے تو صلحاء بھی اس تباہی میں ہلاک ہوجاتے۔ حضورﷺ نے حضرت عائشہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ نیکو کاروں کی موجودگی میں جو عذاب بدکاروں پر نازل ہوتا ہے۔ اس میں صلحاء بھی مارے جاتے ہیں۔ پھر اپنی اپنی نیت کے مطابق ان کا حشر ہوگا۔
روایت چہارم
’’اخرج البیہقی عن عمر بن الخطاب قال قال رسول اﷲﷺ اوحیٰ اﷲ الیٰ جبریل ان اقلب مدینۃ کذا وکذابا ہلہا فقال یا رب ان فیہم عبدک فلا نالم یعصک طرفۃ عین قال فقال اقلبہا علیہ وعلیہم فان وجہہ لم یتمعرفی ساعۃ قط‘‘ بیہقی نے عمر بن خطاب سے مرفوعاً روعایت کیا ہے کہ خدا نے بذریعہ وحی جبریل کو حکم دیا کہ فلاں شہر کو زیروزبر کردو۔ جبریل نے عرض سنائی کہ اس میں ایک تیرا مخلص بندہ ایسا بھی ہے جس نے ساری عمر میں ایک لمحہ بھر تیری نافرمانی نہیں کی۔ خدا نے کہا۔ کچھ پرواہ نہیں۔ شہر کو الٹ دو۔ کیونکہ وہ بدی کو دیکھتا ہے اور اس کے چہرے پر آثار نار اضگی کبھی ظاہر نہیں ہوئے۔ (یعنی رنج سے چہرے پر سرخی نمودار نہیں ہوئی)
روایت پنجم
’’عن عبداﷲ بن مسعود مرفوعاً لما وقعت بنو اسرائیل فی المعاصی نہتہم علماؤہم فلم ینتہوا فجالس ہم فی مجالسہم واکلوہم وشاربوہم فضرب اﷲ قلوب بعضہم ببعض فلعنہم علیٰ لسان داؤد وعیسیٰ بن مریم ذلک بما عصوا و کانو یعتدون فجلس رسول اﷲﷺ وکان متکئا فقال لا والذی نفسی بیدہ حتیٰ تاطردہم اطرا (مسند احمد ج۱ ص۳۹۱)‘‘ ابودائود اور ترمذی نے عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ سرور کائنات علیہ السلام نے فرمایا جب بنو اسرائیل معاصی میں مصروف ہوگئے تو علماء نے ہر چند انہیں منع کیا لیکن وہ باز نہ آئی۔ آخر کار ہار کر نصیحت چھوڑ بیٹھے اور ان سے شریک مجلس اور ہم پیالہ ہم نوالہ ہوگئے تو خدا نے سب دلوں کو گویا ایک ٹکسال سے نکال دیا اور حضرت عیسیٰ اور دائود نے اپنے کلام میں ان پر لعنت کی اور وہ خدا کی لعنت تھی کیونکہ وہ عاصی اور متجاوز حدود تھی۔ حضرت تکئے کا سہارا چھوڑ کر بیٹھ گئے اور کہا کہ مجھے اس ذات کی قسم جس کے پنجہ قدرت میں میری جان ہے کہ تم نجات نہیں پاسکتے۔ جب تک قوم کو سرکشی سے منع نہ کرو۔