نہیں ہوتا۔ آخر کار عذاب کا حکم نازل ہوکر ان کی تباہی کا موجب ہوجاتا ہے۔اور علیٰ ہذا القیاس اور آیات بھی اس مضمون کی تائید میں بکثرت موجود ہیں۔ جن کا اسقصاء مسکل ہے اور احادیث شارحہ نے مسئلہ ہذا کی ہستی کو نہایت ہی روشن کردیا ہے۔
حدیث اول
جو بروایت عبادہ بن صامت صحیحین میں مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’ومن اصاب من ذالک شیئاً فعوقب بہ فی الدنیا فہوکفارۃ لہ ومن اصاب من ذلک شیئا ثم سترہ اﷲ فہو الی اﷲ ان شاء عفا عنہ وان شاء عاقبہ فبایعناہ علیٰ ذلک(بخاری شریف ج۱، کتاب الایمان ص۷)‘‘ یعنی جو فرد بشرشرک، زنا، سرقہ اورقتل اولاد اور بہتان اور معصیت کا مرتکب ہوا اور اسے دنیا میں سزا مل جائے تو بس گناہ کا کفارہ ہوگیا اور خدا نے پردہ پوشی سے کام لیا تو سمجھو کہ التواء واقع ہوگیا اور معاملہ خدا کے سپرد رہا خواہ معاف کرے یا سزا کا حکم صادر کرے۔
حدیث دوئم
اور حضرت معاذ بن جبلؓ نے آنحضرتﷺ سے روایت کیا ہے: ’’ایاک والمعصیۃ فان بالمعصیۃ حل سخط اﷲ (مسند احمد ج۵ ص۲۳۸)‘‘معصیت الٰہی سے برکنار رہو کیونکہ حکم عدولی سے خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔ یہ روایت مسند امام احمد میں موجود ہے۔
حدیث سوم
جو ترمذی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے اپنے مضمون کے لحاظ سے بالکل سابقہ روایتوں کے ہم آواز ہے: ’’اذا اراد اﷲ بعبدہ الخیر عجّل لہ العقوبت فی الدنیا واذا اراد اﷲ بعبدہ الشرامسک عنہ بذنبہ حتی یوافیہ بہ یوم القیامۃ (ترمذی ج۲ ص۶۲)‘‘ جب خدا اپنے کسی بندے سے بھلا ارادہ رکھتا ہے تو دنیا میں گناہ کی سزا اسے دے دیتا ہے اور جس کے متعلق ایسا ارادہ نہ ہو اس کی سزا قیامت پر ملتوی کردیتا ہے۔
ترک رہنمائی کبیرہ گناہ ہے
بڑی معصیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک کرنا ہے جس سے دنیا میں ضلالت پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ بہت روایات اس مضمون کی شاہد ہیں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے انحراف موجب نزول غضب ہے۔