کیا کہ جو فرد بشر میری مریدی میں داخل ہوگا کہ وہ گویا میری چار دیواری میں داخل ہے وہ طاعون کی زد سے محفوظ رہے گا گویا گھر کی چار دیواری نہیں بلکہ بیعت کی چار دیواری مراد ہے۔ اور اس بناء پر اپنے مریدوں کو طاعون کا ٹیکا لگانے سے منع کردیا کہ خدا نے طوفان طاعون میں ان کی حفاظت کو اپنے ذمہ لیا ہے۔ اس لئے وہ ٹیکا کی ضرورت سے سبکدوش ہیں مگر مرزا قادیانی کے مریدوں کا طاعون نے وہ ستیاناس کیا کہ الامان الامان معلوم ہوتا تھا کہ در اصل متبع طاعون یہی قوم ہے اور نیک بختوں پر انہیں کی شامت سے طاعون واقع ہورہی ہے۔ در اصل طاعون کا مریدوں پر حملہ نہ تھا بلکہ مرزا قادیانی کے الہام پر حملہ کرکے ان کی تکذیب منظور تھی حتی کہ دھرم کوٹ رندھاوا میں ایک واقعہ اس نوعیت سے گزرا کہ مرزاقادیانی کے مریدوں نے اپنی ہم جماعت مطعون کی لاش کو بغیر دفن چھوڑ دیا اور نزدیک تک نہ گئے آخر کار مسلمانوں کی جماعت نے بحکم لاچاری اسے تہ زمین میں ڈال دیا۔ کہتے ہیں کہ اس کا جنازہ ادا نہیں ہوا تھا۔
۳… اتفاق سے مرزا غلام حیدر مرحوم کا انتقال ہوگیا۔ جن کا رہائشی مکان مرزا قادیانی کے مکان سے ملحق تھا جو ان کے ورثاء کی تحویل میں آگیا۔ وہ اپنا حصہ فروخت کرنے پر رضا مند ہوگئے۔ تب مرزا قادیانی نے اپنے الہام کا رخ دوسری طرف پھیر دیا اور کہا کہ: ’’اس طوفان میں بحکم انی احافظ کل من فی الدار میرا مکان بمنزلۃ کشتی نوح ہے جو اس میں داخل رہے گا وہ طاعون سے محفوظ رہے گا اور جو اس سے باہر ہوا وہ تباہ ہوگا۔ لیکن میرا مکان بالکل تنگ ہے جس میں بہت تھوڑے آدمیوں کی گنجائش ہوسکتی ہے اور مرزا غلام حیدر متوفی کے ورثاء اپنا وہ حصہ جو میرے مکان سے ملحق ہے۔ بیع کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ اس لئے چندہ کی ضرورت ہے تاکہ میں اپنے مکان کو جو بمنزلۃ کشتی نوح ہے وسیع کردوں تاکہ زیادہ آدمیوں کی حفاظت ہوسکے۔‘‘ (کشتی نوح ص۷۶، خزائن ج۱۶ ص۸۶) کوئی مرید غور نہیں کرتا کہ پہلے خود بدولت نے الہام کے معنے یہ قراردئیے تھے کہ جو میری بیعت کی چار دیواری میں داخل ہوگا طاعون کے حملہ سے محفوظ رہے گا۔ اور اب مرزا غلام حیدر کا متروکہ مکان فروخت ہوتا دیکھ کر الہام کا رخ دوسری طرف کر دیا۔ کہاں لکھا ہے کہ مرزا غلام حیدر متوفی کے مکان کا فروخت ہونا الہام کے معنے تبدیل کرنے کے لئے قرینہ صارفہ ہے۔ دوئم اگر آپ کا مکان بمنزلہ کشتی نوح تھا جیسا کہ آپ نے الہام کا منشا ظاہر کیا ہے تو پھر نبی کو اپنے الہام پر ایسا اعتماد ہونا چاہئے کہ اس میں ذرہ بھر پس وپیشی نہ کرے۔ اور سمجھے کہ زمین وآسما ن ٹل جائیں مگر خدا کی باتیں نہ ٹلیں گی۔۔ معہذا آپ کا کشتی نوح کو چھوڑ کر باہر صحراء میں خیمہ زن ہونا کیا معنے رکھتا ہے؟ اینچہ بوالعجبی است؟ سوم اگر آپ کا مکان بمنزلۃ کشتی