مرزا قادیانی کی پیش گوئی کو جامۂ وجود پہنانے سے انکار کرنا اسلام کی پہلی تائید ہے اور پھر ان کے اخباروں میں ان کی قلم سے اس اقرار کو قلم بند کرانا دوسری تائید ہے۔ ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں اور نووی نے شرح مسلم میں بحوالہ قول قاضی عیاض یہ مسئلہ اعتقاد یہ تحریر کیا ہے کہ انسان کی کئی پیش گوئیاں جو باعتبار نجوم یا رمل یا جفر بیان کرتا ہے۔ اتفاقیہ طور پر صحیح نکل آتی ہے۔ مگر جب وہ مدعی نبوت ہوجائے اس کی پیش گوئیاں قطعاً خدا کی طرف سے جھوٹی کی جاتی ہیں تاکہ خلق خدا پر تلبیس واقع نہ ہوا ور وہ غیر نبی کو نبی نہ خیال کرنے لگیں اور توراۃ کتاب استثناء باب ۱۸ میں جھوٹی مدعی کی یہ شناخت لکھی ہے کہ: ’’اگر کوئی نبی خدا کا نام لے کر کوئی ایسی بات کہے جو پوری نہ ہو تو سمجھ کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے تو اس سے مت ڈر۔‘‘ اس رول کے ماتحت مرزا قادیانی کی کل پیش گوئیوں اور الہامات میں تخلف واقع ہوا جو آپ کی افتراء پر درازی کی دلیل ہے۔ محمدی بیگم کے متعلق مشتہرہ پیش گوئی اور عبداللہ آتھم کی موت، لیکھرام کی موت، وغیرہ وغیرہ ان میں سے کوئی الہام اپنی عبارت میں پورا نہیں ہوا۔
لیکھرام کے متعلق آپ نے یہ الفاظ لکھے تھے کہ وہ خارق عادت موت سے مرے گا۔ حالانکہ اس کی موت کسی آسمانی خارق عادت طریق سے عمل میں نہیں آئی بلکہ وہ مقتول ہوا جو عام طور پر سرحد میں روزانہ ایسے واقعات عمل میں آتے ہیں اور نیز حمامۃ البشریٰ میں ان الفاظ میں وہ الہام مندرج ہے: بشرنی ربی بموتہ فی ست سنۃ جو قاعدہ کے لحاظ سے یہ عبارت غلط ہے جو ملہم کی لاعلمی پر دلالت کرتی ہے اور ظاہر ہے کہ شیطان لاعلم ہے خدا کی ذات لاعلمی سے مبّٰرا ہے۔ اس کی صفت تو قرآن میں لکھی ہے: ’’قد احاط بکل شیء علما‘‘ اور لکھا ہے ’’انزلہ الذی یعلم السرفیٰ السموت والارض‘‘ اور الہام الٰہی کے متعلق ارشاد ہے: ’’انما انزل بعلم اﷲ‘‘ قاعدہ متقضی تھا کہ اعداد کی تمیزثلث سے عشر تک مجرد اور مجموع ہو اور مرزا قادیانی برخلاف ضابطہ ست کی تمیز مفرد لکھی ہے یعنی ست سنۃ اور چاہئے تھا ست سنین یا ست سنوات۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود ساختہ الہام ہے ورنہ عبارت میں غلطی نہ ہوتی اور یہ ممکن نہیں کہ خدا کا الہام غلط عبارت میں نازل ہو چنانچہ مرزا قادیانی نے رسالہ ضرورت الامام میں اس بات کا خود اعتراف کیا ہے کہ جس الہام کی عبارت برخلاف قاعدہ اور غلط ہے وہ منجانب اﷲ نہیں۔
۲… اور ایک طرح سے بھی طاعون مرزا قادیانی کے دعویٰ کی تکذیب کرتی ہے کہ (کشتی نوح ص۱۰، خزائن ج۱۹ ص۱۰) میں آپ لکھتے ہیں کہ: ’’مجھے خدا کا الہام ان لفظوں میں ہوا۔ انی حافظ کل من فی الدار‘‘ (کشتی نوح ص۱۰ خزائن ج۱۹ ص۱۰) اور فی الدار کی وسعت کو ایسا عام وتام بیان