اﷲ تعالیٰ کی رضا کی راہوں کا ظاہر کرنا تھا اور تکمیل دین کے بعد اس کی ضرورت نہ رہی اس لئے اب نبوت نہیں، مگر مقامات عالیہ تک پہنچنے کی سب راہیںآنحضرتﷺ کے ذریعہ موجود ہیں، چنانچہ احمد اور ابن ابی حاتم اور بیہقی نے روایت کی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ’’ان اﷲ تعالیٰ عبادا لیسوا بانبیاء ولاشہداء یغبطہم النّبییون والشہداء علی مجالستہم وقربہم من اﷲ‘‘ (روح المعانی) یعنی اﷲ تعالیٰ کے کچھ بندے ہیں جو نبی اور شہید نہیں، لیکن نبی اور شہید کے مرتبہ اور ان کے اﷲ تعالیٰ کے قرب پر رشک کریں گے اور ابو ہریرہؓ سے اسی کی مثل روایت ہے: ’’ان من عباد اﷲ یغبطہم الانبیاء والشہدائ‘‘ اور جب لوگں نے پوچھا کہ وہ کون ہیں تو آپ نے ان کے متعلق کچھ باتیں بیان کرکے یہی آیت پڑھی: ’’الآ ان اولیاء اﷲ لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون (تفسیر ابن جریر)‘‘
اور ایسی ہی روایت ابودائود میں ہے (ابن کثیر) اور ان روایات کا ماحصل یہی ہے کہ بسبب کمال اتباع نبوی قرب الٰہی کے مراتب اسی طرح لوگوں کو ملتے رہیں گے اور انقطاع نبوت سے مقامات عالیہ سے محروم نہ کئے جائیں گے۔ بلکہ اگر آنحضرت رحمت عالمﷺ پر جو تمام عالم میں ایک ہی انسان کامل ہیں اور اپنے کمالات میں نظیر نہیں رکھتے۔ نبوت ختم نہ ہوتی اور دوسرے نبی آنے والے کی اتباع لازم کی جاتی تو وہ مقامات عالیہ جو بسبب کمال اتباع محمدی حاصل ہوتے ہیں، ان سے مخلوق محروم رہ جاتی۔ پس ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ پر ختم نبوت تمام مخلوق کے لئے رحمت ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے کئی راتوں میں نہایت نیاز اور راز داری سے دعا کی کہ اے اﷲ اتباع محمدی سے مستفیض فرما اور ’’مستجاب الدعائ‘‘ ہوا۔
سوال… عیسیٰ بن مریم علیہ السلام مستقل انبیاء اولوالعزم سے ہیں تو برتقدیر نزول اگر شرع محمدیﷺ کے متبع ہوں گے تو نبوت سے معزول کئے جائیں گے جو سراسر خلاف عقل ونقل ہے اور اگر ’’نزول مع النّبوۃ‘‘ ہوگا تو ’’خاتم النّبیین‘‘کی مہر ٹوٹ جائے گی؟
جواب… نبوت اور رسالت کے لئے دورخ ہیں، یعنی ظہور اور بطون، اﷲ تعالیٰ سے مکالمہ ومخاطبہ اور فیضان کے حاصل کرنے کو بطون کہا جاتا ہے اور صاحب بطون کو مقرب الٰہی ہونا لازم اور غیر منفک ہے اور مخلوق کی طرف توجہ اور تبلیغ شریعت ظہور ہے اور بسبب تبدل وتغیر شرائع کے ظہور میں انقلاب آسکتا ہے اور چونکہ نبی سابق کی شریعت کیلئے نبی لاحق کی شریعت ناسخ ہوتی ہے