کی نقل کرکے مرزا محمود احمد قادیانی کے مریدوں نے نکالا ہے۔ حالانکہ اس آیت کو نہ مرزا غلام احمد قادیانی نے خود اور ان کی زندگی میں ان کے مریدوں نے کبھی پیش کیا۔ ایک شرطیہ جملہ سے یہ نتیجہ نکالنا کمال نادانی ہے۔ مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ اگر بنی آدم کے پاس خدا کا رسول آئے۔ تو اس کو قبول کرنے میں ان کی بہتری ہے۔ سو وہ رسول اﷲ یعنی محمدﷺ ہیں۔ آپ کی ذات بابرکات کے متعلق یہ اعلان ہے کہ اگر اس کو قبول کرلو گے تو تمہاری بہتری کا موجب ہے اگر رد کرو گے تو تمہارے نقصان کا موجب ہے اور اگر کہا جائے کہ ’’رسل‘‘ کا لفظ جمع کیوں استعمال کیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس لئے کہ خطاب کل نبی آدم کو ہے اور بنی آدم کی طرف رسول بھیجنے کا عام ذکر ہے۔ تو بلا شبہ آنحضرتﷺ سے پہلے بنی آدم کے پاس رسول آتے رہے اور سب سے آخر حضرت محمدﷺ کو بھیجا گیا کہ دنیا کی کل قوموں کو ایک سلسلہ اخوت میں منسلک کریں اور اس بات کی شہادت کہ آپ کے بعد رسول نہ آئیں گے۔ دوسری جگہ سے ملتی ہے جہاں فرمایا: ’’الیوم اکملت لکم دینکم (مائدہ:۳)‘‘ {آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا۔} رسول تو دین سکھانے کے لئے آتے تھے۔ جب اﷲ تعالیٰ نے دین کو کامل کرکے پہنچا دیا تو پھر رسولوں کے آنے کی ضرورت بھی باقی نہ رہی۔ جب ’’کمال شریعت‘‘ اور شریعت کے آنے کے لئے مانع ہوگیا تو ’’کمال نبوت‘‘ بھی اور نبی کے آنے کے لئے مانع ہوگیا جو ضرورت تھی وہ پوری ہوگئی۔ آفتاب رسالت شمس نصف النہار کی طرح چمک رہا ہے۔ اس لئے اب کسی ’’رسول‘‘ کی ضرورت دنیا کو نہیں اور وہ لوگ جو ’’رسول‘‘ کے آنے کا جواز نکالتے ہیں۔ مگر شریعت کا آنا نہیں مانتے ان کے لئے خود یہاں لفظ موجود ہیں: ’’ یقصّون علیکم اٰیٰتی‘‘ یعنی ’’رسول‘‘ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پیغام بھی لائیں گے۔ وہی پیغام شریعت ہے اور اگر کہا جائے کہ یہ کسی پہلے ’’رسول‘‘ کی آیات ہیں تو پھر تکذیب تو ان آیات کی ہے۔ دیکھو اگلی دوسری آیت ایسے ’’رسول‘‘ کی تکذیب کوئی شے نہ ہوئی۔
دوسری آیت سے صاف شہادت ملتی ہے کہ رسولوں کے آنے سے مراد ایسے رسولوں کا آنا ہے جن کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا کوئی پیغام بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ جس طرح پہلے فرمایا تھا: ’’اما یاتینکم منی ہدی(البقرۃ)‘‘ اور اس کے متعلق دوگروہوں کا ذکر کیا:
ایک: ’’فمن تبع ہدای‘‘ اس ہدایت کی پیروی کرنے والے اور