اگر یہ دعا نبوت کے حاصل کرنے کے لئے ہوتی تو کم از کم آنحضرتﷺ کو ہی مقام نبوت پر کھڑا ہونے سے پہلے سکھائی جاتی مگر قرآن کریم میں اس کا موجود ہونا بتاتا ہے کہ مقام نبوت ملنے کے بعد سکھائی گئی۔ نبوت عطا فرما کر اس دعا کا سکھانا صاف بتاتا ہے کہ حصول نبوت کے لئے یہ دعا نہیں اور اگر حصول نبوت کی دعا مانا جائے تو ماننا پڑے گا کہ تیرہ سو سال میں کسی مسلمان کی دعا قبول نہ ہوئی۔ حالانکہ مقربین اور محبوبین ہزاروں کی تعداد میں ہو کر گزرے، خدا خود دعا سکھائے اس کی حکمت یہ ہو کہ دعا مانگنے والے کو نبوت ملے۔ دعا کرنے والی امت کو ’’خیر امۃ‘‘ کہا جائے اور پھر تیرہ سو سال سب کے سب محروم رہیں۔ حتیٰ کہ وہ بھی جن کے متعلق صریح سند ہے۔’’رضی اﷲ عنہم ورضوعنہ‘‘ اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اﷲ سے راضی ہوگئے۔ یہ نہیں ہوسکتا۔
’’یبنی آدم اما ایتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیٰتی فمن اتقٰی واصلح فلا خوف علیہم ولا ہم یحزنون والذین کذبوا باٰیتنا واستکبروا عنہا اولٰئک اصحب النارہم فیہا خالدون(الاعراف)‘‘{یعنی اے بنی آدم! اگر کبھی تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں، میری آیات تم پر پڑھتے ہوں، تو جو کوئی تقویٰ کرے اور اصلاح کرے ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ پچھتائیں گے اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلائیں اوران سے تکبر کریں، وہ آگ والے ہیں، اسی میں رہیں گے۔} پہلی آیت سے پیشتر چند باتیں عام طور پر ساری نسل انسانی کو مخاطب کرکے کہی ہیں۔ ’’یبنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا‘‘ ’’یبنی آدم لا یفتننّکم الشیطن‘‘ ’’یبنی آدم خذو زینتکم‘‘اور یہاں نیز سیاق کے مطابق ساری نسل انسانی کو مخاطب کرکے کہا ’’یبنی اٰدم امام یاتینکم رسل‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ لباس سارے بنی آدم کے لئے ہے۔ شیطان کے فتنہ سے سب بنی آدم کو متنبہ کیا ہے۔ سب بنی آدم خدا کی عبادت کرتے وقت زینت اختیار کرنے کوکہا اور بالآخر سب بنی آدم کو بتایا کہ اگر اﷲ تعالیٰ کوئی اپنا رسول بھیجے تو اس کو قبول کرنا چاہئے۔ کیونکہ رسولوں کو قبول کرنے سے انسان کی اصلاح ہوتی ہے اور ان کا رد کرنا موجب خسران ہے۔ بعض ختم نبوت کے منکر اس سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ اس کے ماتحت آنحضرتﷺ کے بعد بھی رسول آتے رہنے چاہئیں۔ اس آیت سے رسولوں کے آنحضرتﷺ کے بعد آنے کا نتیجہ اوّل بہاء اﷲ نے اور بعد میں ان کی