سند قول کے سامنے رد کی جاتی ہے۔ اگر اس قول کو صحیح مانا جائے تو کیوں اس کے معنی یہ نہ کئے جائیں کہ حضرت عائشہؓ کا مطلب یہ تھا کہ دونوں باتیں اکٹھی کہنے کی ضرورت نہیں۔ ’’خاتم النّبیین‘‘ کافی ہے۔ جیسا کہ مغیرہ بن شعبہ کا قول ہے کہ ایک شخص نے آپؓ کے سامنے کہا ’’خاتم الانبیاء ولا نبی بعدہ‘‘ تو آپ نے کہا ’’خاتم الانبیائ‘‘ کہنا تجھے بس ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا مطلب ہو کہ جب اصل الفاظ ’’خاتم النّبیین‘‘ واضح ہیں او ر احادیث نبویہ سے واضح ہوچکے ہیں تو وہی استعمال کرو۔ یعنی الفاظ قرآنی کو الفاظ حدیث پر ترجیح دو۔ اس سے یہ کہاں نکلا کہ آپ الفاظ حدیث کو صحیح نہ سمجھتی تھیں اور اتنی حدیثوں کے مقابل اگر ایک حدیث ہوتی تو وہ بھی قابل قبول نہ ہوتی چہ جائیکہ صحابی کا قول ہو جو حدیث کے مقابل شرعاً حجت نہیں۔
صراط الذین انعمت علیہم!
’’انعمت علیہم‘‘ سے کون مراد ہیں؟ قرآن کریم خود تشریح فرماتا ہے کہ ’’الذین انعم اﷲ علیہم من النّبیین والصدیقین والشہداء والصلحین(النسائ)‘‘ یعنی وہ انبیاء اور صدیق اور شہید اور صالح ہیں۔ یہاں نبی کا لفظ آجانے سے بعض لوگوں کو یہ ٹھوکر لگی ہے کہ خود ’’مقام نبوت‘‘ بھی اس دعا کے ذریعہ سے مل سکتا ہے اور گویا ہر مسلمان ہر روز بار بار ’’مقام نبوت‘‘ کو ہی اس دعا کے ذریعہ سے طلب کرتا ہے۔ یہ ایک اصولی غلطی ہے۔ اس لئے کہ نبوت محض موہبہ ہے اور نبوت میں انسان کی جدوجہد اور اس کی سعی کو کوئی دخل نہیں ایک وہ چیزیں ہیں جو موہبہ سے ملتی ہیں اور ایک وہ جو انسان کی جدوجہد سے ملتی ہیں۔ نبوت ’’اوّل‘‘ یعنی پہلی قسم میں سے ہے جیسا کہ : ’’الرحمن علم القرآن‘‘ سے بھی ظاہر ہے۔ کیونکہ الرحمن کے معنی بلا بدل اور بلا جدوجہد رحمت کرنے والا ہے۔ دنیا میں کوئی شخص کوشش کرکے اور دعائیں مانگ مانگ کر، اور خدا سے التجائیں کرکے نہ پہلے نبی بنا، نہ آئندہ بنے گا بلکہ خود اﷲ تعالیٰ ’’اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ(الانعام)‘‘ کے ماتحت جب چاہتا کسی کو نبوت ورسالت کے منصب پر کھڑا کردیتا تھا، یہاں تک کہ اپنی کامل ہدایت کی راہیں آنحضرتﷺ پر کھول کر تمام آنے والی نسلوں کے لئے مقام نبوت ورسالت کو ایک برگزیدہ انسان کے نام کے ساتھ مخصوص کردیا اور اس کو ’’النبی‘‘ اور ’’الرسول‘‘ کے نام سے پکار کر بتا دیا کہ اب دوسرا نبی اور دوسرا رسول نہیں ہوگا۔ پس مقام نبوت کے لئے دعا کرنا ایک بے معنی فقرہ ہے اور اسی شخص کے منہ سے نکل سکتا ہے جو اصول دین سے ناواقف ہے۔