حدیث اوّل: جس میں لفظ ’’ختم النّبیین‘‘ کی تفسیر زبان نبویﷺ سے مروی ہے۔ متفق علیہ ہے۔ ’’مثلی ومثل الانبیاء کمثل رجل بنی بیتا فاحسنہ واجملہ الاموضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویتعجبون لہ ویقولو ن ہلا وضعت ہذہ اللبنۃ قال فانا اللبنۃ وانا خاتم النّبیین‘‘ یعنی میری مثال اور نبیوں کی مثال ایک شخص کی مثال ہے۔ جس نے ایک گھر بنایا اور اسے اچھا خوبصورت بنایا سوائے کونے کی اینٹ کے تو لوگ اس کے گرد گھومتے اور تعجب کرتے اور کہتے اینٹ کیوں نہیں لگائی سو میں وہ اینٹ ہوں اور میں ’’خاتم النّبیین‘‘ ہوں۔
دوسری حدیث: ابو دائود اور ترمذی میں لفظ ’’ختم النّبیین‘‘ کی تفسیر یوں کی ہے: ’’انہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النّبیین لا نبی بعدی ‘‘ یعنی میری امت میں ’’تیس کذاب‘‘ ہوں گے ہر ایک ان میں سے جھوٹا دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میں ’’ختم النّبیین‘‘ ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اور تیسری حدیث: جو مسلم، ترمذی میں نسائی کی ہے یہ ذکر ہے کہ مجھے چھ چیزوں میں دوسرے انبیاء علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے۔ جن میں چھٹی یہ ہے کہ ’’ختم بی النّبیون‘‘ یعنی میرے ساتھ نبی ختم کئے گئے ہیں، وہاں بجائے ’’خاتم النّبیین‘‘ کے یہ لفظ رکھ کر بتا دے کہ ’’خاتم النّبیین‘‘ سے یہی مراد ہے نہ کچھ اور۔
وہ احادیث جن میں آپﷺ کے آخری نبی ہونے کا ذکر ہے اور وہ بھی در حقیقت ’’خاتم النّبیین‘‘ کی تفسیر ہی ہیں۔ بہت سی ہیں مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ بنی اسرائیل میں نبی کے بعد نبی آتا تھا۔ لیکن میرے بعد نبی نہ آئے گا۔ بلکہ خلفاء ہوں گے اور ایک حدیث میں ہے کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا اور ایک میں ہے کہ علیؓ کی نسبت میرے ساتھ وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیںاور ایک میں ہے کہ میرا نام عاقب ہے اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ’’انا العاقب والعاقب الذٓی لیس بعدہ نبی‘‘
اور ایک میں ہے کہ نبوت میں کچھ باقی نہیں رہا مگر مبشرات۔
اور ایک میں ہے کہ نبوت اور رسالت منقطع ہوگئی۔
اور دس حدیثوں میں ہے کہ ’’لانبی بعدی‘‘ یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔