طرف قیامت کے دن سے پہلے لوٹ کر آنے والے ہیں۔
۲… وفد نصاریٰ بنی نجران کی دربار رسالت میں حاضری کا واقعہ سیرت کی کتابوں میں اس قدر شہرت کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ تاریخ اسلام سے ادنیٰ مناسبت رکھنے والے کو بھی اس کی خبر ہوگی۔ ابن ہشام نے تفصیل لکھی جس کا دل چاہے دیکھ لے۔ ہم نے اس واقعہ کے صرف اس قدر حصہ کو نقل کیا جس کا ہمارے مضمون سے تعلق تھا۔ اب اس کی سند بیان کئے دیتے ہیں: ’’اخرج ابن جریر ابن ابی حاتم عن الربیع قال ان النصاریٰ اتو رسول اﷲﷺ فخاصموا فی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام وقالو لہ من ابوہ وقالو علی اﷲ الکذب البہتان فقال لہم النّبیﷺ الستم تعلمون انہ لا یکون ولداً الا وہو لیشبہ اباہ قالوا بلیٰ قال الستم تعلمون ان ربنا حتی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفنا قالو بلیٰ‘‘ نصاریٰ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے باب میں مخاصمہ کرنے لگے اور کہا کہ (اچھا بتائو) ان کا باپ کون ہے؟ پھر خدا پر جھوٹ بہتان باندھنے لگے۔ (یعنی ان کو خدا کا بیٹا بتایا۔) حضورﷺ نے فرمایا تم نہیں جانتے بیٹا ہمیشہ باپ سے مشابہ ہوا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں! حضور نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب تو ایسا زندہ ہے کہ کبھی نہیں مرے گا ہی نہیں اور یقینا عیسیٰ علیہ السلام پر فنا آئے گی۔ وہ بولے بے شک، یا للعجب کہ اصلی مسیحی تو حضور کے سامنے ’’بلیٰ‘‘ کہیں مگر جعلی ونقلی مسیح کے پیرو ’’لا‘‘ ہی کہے جائیں۔
حضور اکرمﷺ فرمائیں کہ وہ ابھی نہیں مرے بلکہ مریں گے۔ یہ کہے جائیں کہ نہیں وہ مر گئے۔ حافظ جی کا یہ کہنا کہ ’’قرآن ان کو رد کررہا ہے۔ صحیح حدیثیں ان کو رد کرررہی ہیں۔‘‘ یہ صرف کہنا ہی کہنا ہے۔ اگر حوصلہ تھا تو کسی ایک آیت ہی میں دکھایا ہوتا کہ ’’ان عیسیٰ مات‘‘ عیسیٰ مر گئے۔‘‘ قرآن کریم میں تو کسی جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ’’موت‘‘ کا لفظ استعمال ہی نہ کیا گیا مگر وہی جہاں ان کے دوبارہ آنے کے بعد تمام اہل کتب کے ایمان لانے کا واقعہ بیان ہوا۔ یعنی ان من اہل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ (اس کا ترجمہ بھی ہم وہی لکھ دیں جو مرزا قادیانی کے خلیفہ نمبر۱ نے لکھا شاید مرزائی اس کو دیکھ کر ہی ہدایت پا جائیں) ترجمہ ’’نہیں کوئی اہل کتب سے مگر البتہ ایمان لائے گا ساتھ اس کے (عیسیٰ علیہ السلام کے) پہلے موت اس کی (عیسیٰ علیہ السلام) کے۔‘‘ (فصل الخطاب ج۲ ص۸۰) رہی توفیٰ اس کی کیفیت ہم ظاہر کر ہی چکے۔