ان عیسیٰ علیہ السلام لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیمۃ ان عیسیٰ علیہ السلام یأتی علیہ الفنا
مذکورہ بالا احادیث کے متعلق حافظ جی نے ناحق یہ کہنے کی بھی تکلیف گوارہ فرمائی کہ ’’یہ کوئی معتبر روایتیں نہیں نہ صحاح ستہ میں ان کا وجود پھر قرآن ان کو رد کررہا ہے۔ صحیح حدیثیں ان کو رد کررہی ہیں۔‘‘
یہاں انہوں نے یقینا حق شاگردی مرزا ادا نہیں کیا۔ انہیں وہی کہنا چاہئے تھا جو ایسے مواقع پر مرزا قادیانی نے کہا جب کبھی علماء نے کلام الٰہی کی تفسیر میں احادیث کو پیش کیا اور مرزا قادیانی کا دم بند ہوا تو مرزا قادیانی نے جھٹ کہہ دیا کہ۔
۱… ’’جو شخص حکم ہوکر آیا ہے اسے اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کرے۔‘‘
(حاشیہ تحفہ گولڑویہ ص۱۰، خزائن ج۱۷ ص۵۱)
۲… ’’اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۳۰، خزائن ج۱۹ ص۱۶۰)
مسلمان تو یقینا قرآن کریم کو اسی طرح سمجھتے ہیں جس طرح حضور صاحب وحی وکتابﷺ نے اپنی احادیث میں سمجھایا۔ مرزا قادیانی نے جب قرآن ہی کے متعلق یہ فرما دیا کہ ’’زمین سے اٹھ گیا تھا میں آسمان سے لایا ہوں۔‘‘ تو حدیثوں کا انکار کردینا ان کے لئے کیا بڑی بات تھی۔
حافظ جی کو تو خبر نہیں مگر ہاں علم دین سے معمولی حصہ پانے والا بھی جانتا ہے کہ یہ کہنے سے کہ ’’کوئی معتبر روایتیں نہیں نہ صحاح ستہ میں ان کا وجود…الخ!‘‘ کوئی حدیث غیر معتبر نہیں ہوسکتی۔ کیا صحاح ستہ کی حدیثوں کے سوا تمام احادیث غیر معتبر ہیں؟ اور کیا صحاح ستہ کی کسی حدیث میں کسی قسم کا ضعف ہے ہی نہیں؟ (اﷲ اس جہالت سے پناہ میں رکھے)
۱… پہلی حدیث علامہ ابن کثیر وابن جریر نے اپنی اپنی تفاسیر میں باسناد صحیحہ نقل فرمائی۔ ایک سند ہم نقل کئے دیتے ہیں: ’’قال ابن ابی حاتم حدثنا احمد بن عبدالرحمن حدثنا عبداﷲ بن ابی جعفر عن ابیہ حدثنا الربیع بن انس عن الحسن قال قال رسول اﷲﷺ للیہود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیمۃ۔‘‘ رسولﷺ نے یہود سے فرمایا کہ یقینا عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے اور وہ یقینا تمہاری