چیلنج‘‘ دیا کہ ’’اگر فعل توفیٰ، رفع کے ساتھ مستعمل ہے اور فاعل دونوں کا اﷲ ہو اور مفعول ذی روح ذات واحد ہو تو وہاں توفیٰ کے معنی اخذ مع الرفع ہی کے ہوں گے، نہ کوئی اور معنی۔ اگر کوئی مرزائی سارے قرآن کریم میں ایک مقام پر بھی اس کے خلاف دکھاوے تو اسے مبلغ ایک ہزار روپیہ انعام ملے گا۔‘‘
اس چیلنج کو دئیے ہوئے بھی برسوں گزر گئے مگر آج تک کسی مرزائی کو جواب کی جرأت نہ ہوئی، اس امر پر تمام مسلمانوں کا یقین و ایمان کہ یقینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی انسان، اﷲ کے بندے اور رسول عظیم الشان، بے شک حسب فرمان واخبار عالم ما یکون وکان سید انس وجان علیہ السلام اس دنیا میں مکرر تشریف لائیں گے۔ نکاح کریں گے۔ دجال کو قتل فرمائیں گے۔ پھر مدینہ منورہ ہی میں انتقال فرمائیں گے اور وہیں مقبرہ مبارکہ میں دفن کئے جائیں گے۔ حافظ جی نے آیت کل نفس ذائقۃ الموت لکھی مرزا قادیانی نے ساری اس قسم کی آیتوں کو جمع کرکے اپنی انتہائی قوت صرف کردی، مگر سب بے کار گئی، اس لئے کہ ان کو تو اس وقت پیش کیا جائے۔ جبکہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کبھی موت ہی نہ آئیگی۔ بے شک بے شک وہ رجو ع الیٰ اﷲ جس کے بعد پھر دنیا کی طرف نہ لوٹیں ہوگا اور ضرور ہوگا۔ ابھی رفع الیٰ اﷲ ہوا ہے۔
یہ کہنا کہ ’’اگر کسی نبی کو آئندہ کے لئے زندہ رکھنا خدا کی سنت ہوتی تو حضرت رحمۃ للعالمین (فداہ ابی وامی) کو رکھتا۔‘‘ کتاب وسنت سے جہالت پر مبنی۔ ممکن ہے کل کو کوئی یہ بھی کہے کہ اگر کسی نبی کو بغیر باپ کے پیدا کرنا خدا کی سنت ہوتی تو حضور رحمۃ للعالمینﷺ کو اس طرح بے باپ کے پیدا کرتا۔ اسی طرح دیگر معجزات انبیاء علیہم السلام کا ذکر بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ نرالی توفیٰ اور دوبارہ تشریف آوری کمالات محمدیﷺ ہی کے اظہار کے لئے ہوئی کہ بنی اسرائیل کے نبی اولوالعزم بھی دنیا میں تشریف لائیں اور حضور انورﷺ کے نائب وخلیفہ بن کر خدمات اسلام بجا لائیں تاکہ بنی اسرائیل کے وہ لوگ جو مرض امتیاز نسلی میں مبتلا ہوکر یہ کہتے ہیں کہ ہم بنی اسمٰعیل میں پیدا ہونے والے نبی کو نہیں مانتے، ان کی گردنیں ٹوٹ جائیں اور وہ اسرائیلی نبی حضرت مسیح ناصری کو رحمتہ للعالمین سید المرسلینﷺ کی اطاعت وخلافت کرتے ہوئے دیکھ کر سب کے سب اسلام لائیں اور سمجھ جائیں کہ یہ نبی سارے عالم کے نبی۔ ان کی امت میں نہ گورے کالے کا فرق، نہ حسب ونسب کا امتیاز۔ سب مساوات کے ساتھ ان کے دین میں داخل اور ساری دنیا ان کی امت میں شامل۔