کے سوا قبض جسم وغیرہ کے ہوں۔‘‘ پہلے تو انہیں یہ غور کرنا چاہئے کہ یہ دعویٰ کس نے کیا، کب کیا، کہاں کیا؟ کلمہ توفیٰ ہی کے حقیقی معنی صرف قبض جسم ہیں۔‘‘
مسلمانوں کا دعویٰ تو لغت کی رو سے صرف اس قدر ہے کہ توفیٰ کے حقیقی معنی پورا پورا لینے کے ہیں۔ اگر کسی میں حوصلہ ہو تو یہ دکھائے کہ توفیٰ کے معنی پورا لینے کے نہیں بلکہ صرف موت ہی کے ہیں، ہمارا دعویٰ ہے کہ ’’لینے‘‘ کے ساتھ جو قرینہ ہوگا اس قرینے کے مطابق ’’لینے‘‘ کا مطلب ہوگا۔
اب دیکھئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق جہاں وعدہ متوفیک فرمایا گیا ہے وہاں کیا قرینہ ذکر میں آیا۔ آیت کریمہ ہے: ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ (اس آیت کا ترجمہ ہم مزید اتمام حجت کے لئے وہی کئے دیتے ہیں جو مرزا قادیانی کے خلیفہ اوّل صاحب نے کیا ہے) اے عیسیٰ علیہ السلام میں لینے والا تجھ کو اور بلند کرنے والا ہوں تجھ کو اپنی طرف۔
قرائن
۱… حق تعالیٰ خطاب کرتا ہے عیسیٰ علیہ السلام سے یہ ایک نام ہے کس کا؟ روح اور جسم دونوں کے مجموعہ کا۔
۲… توفیٰ (پورا لینے) کا اطلاق کس پر ہوگا؟ عیسیٰ علیہ السلام کے وجود یعنی روح وجسم دونوں پر۔
۳… رفع (اٹھانا) کس چیز کا ہوگا؟ روح اور جسم دونوں کا۔
۴… توفیٰ (پورا پورا لینا) رفع (روح وجسم کا اٹھانا) کس کی طرف ہوگا؟ اﷲ کی طرف۔
پس ان قرائن نے صاف کردیا کہ یہ توفیٰ ایک علیحدہ قسم کی توفیٰ ہے جس میں نہ نیند کی کیفیت، نہ موت کی صورت بلکہ شکل ہی سب سے جدا، یعنی توفیٰ مع الرفع اور یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس طرح خاص جیسے بغیر باپ کے پیدا ہونا، انہی کے لئے مخصوص۔ اس توفیٰ کا نمونہ کس آیت یا حدیث میں کسی دوسرے شخص کے لئے طلب کرنا سراسر بیہودگی بلکہ فریب اور دھوکہ دہی، اس شان کی توفیٰ کا وعدہ کسی کے ساتھ کیا ہی نہیں گیا اور نہ کسی کی توفیٰ اس طرح ہوئی بلکہ جس طرح ان کے پیدا ہونے کے انداز میں اعجاز اس طرح ان کی توفیٰ بھی اعجازی۔ نظر بریں ہمیں خیال آتا ہے کہ ہندوستان میں ایک صاحب نے حیات مسیح علیہ السلام کو بدلائل ساطعہ ثابت کرتے ہوئے۔ مرزائی چیلنج کا جواب دیتے ہوئے تمام مرزائی پارٹی کو ’’ایک ہزار روپیہ انعام کا