کتب لغت میں تصریح کے ساتھ موجود کہ: التوفیٰ اخذ الشیء و افیا۔ توفیٰ کے (حقیقی) معنی ہیں کسی چیز کا پورا پورا لے لینا، موت کے معنی کیونکر ہوسکتے ہیں۔اس کو علامہ زمخشری جن کی امامت لغت عرب کو مرزا جی بھی تسلیم کرتے ہیں صاف بتا رہے ہیں کہ من المجاز توفیٰ وتوفاہ اﷲ ادرکتہ الوفاۃ۔ یعنی توفیٰ موت کے مجازی ہیں حقیقی نہیں، مجازی معنی موت یا نیند وغیرہ میں اسی وقت لیا جائے گا جبکہ کوئی قرینہ موجود ہو ورنہ اپنے اصلی وحقیقی ظاہری معنی میں رہے گا۔ قرآن وحدیث سمجھنے کے لئے اصول کا متفق علیہ مسئلہ کہ۔
۱… النصوص تحمل علیٰ ظواہرہا وصرف النصوص عن ظواہرہا الحاد نصوص کو ان کے ظاہری معنی پر حمل کیا جائے گا۔ نصوص کو ظاہری معنی سے پھیرنا الحاد ہے۔
۲… اللفظ تحمل علی الحقیقۃ مالم یصرف عنہا صارف لفظ اپنے حقیقی معنی پر حمل کیا جائے گا۔ جب تک کہ اس کو پھیرنے والا (قرینہ) ظاہری معنی سے نہ پھیرلے۔ ان لغت واصول کی باتوں کو سیدھے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ توفیٰ کے اصلی معنی ہیں پورا پورا لینا۔ پس جہاں کہیں بھی یہ لفظ استعمال کیا جائے گا۔ اس کے اول یا بعد کے الفاظ قرینہ بن کر بتا دیں گے کہ کس چیز کا پورا پورا لینا مراد ہے اگر آگے پیچھے کا کوئی لفظ یا جملہ یہ ظاہر کرے گا کہ موت مراد ہے تو مجازی معنی موت کے ہوجائیں گے۔ نیند کا قرینہ ہوگا تو نیند کے۔ جزا وسزا کا ذکر ہوگا تو اس کے۔ حق لینے کا بیان تو اس کے۔ غرض جیسا قرینہ ہوگا ویسے معنی۔ مثلا دوسری آیت لیجئے۔ واﷲ خلقکم ثم یتوفکم ومنکم من یرد الیٰ ارذل العمر اس میں یرد الی الارذل العمر کا قرینہ معنی موت پر دلالت کرنے والا۔ اسی طرح مر زا قادیانی نے موت کے معنی ظاہر کرنے کے لئے (ازالہ الاوہام میں ۳۳۰،۳۳۲، خزائن ج۳ ص۲۶۸،۲۶۹) پر بہت سی آیتیں لکھیں مگر ان سب میں آگے پیچھے کے لفظ موت کا قرینہ ہیں، اس لئے موت کے معنی اور دیکھئے اﷲ یتوفیٰ الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا فیمسک التی قضیٰ علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الیٰ اجل مسمیٰ یہاں ایک ہی آیت میں توفیٰ کی دوشاخیں موجود ایک موت کی کیفیت، دوسری نیند کی حالت۔ دیکھنا یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے معاملے میں کونسی صورت ذکر کی گئی، جیسا کہ ہم نے ابھی بتایا کہ قرینہ توفیٰ کی مراد کو واضح کرے گا وہاں بھی ہمیں قرینہ ہی دیکھنا ہوگا۔
حافظ جی نے تو غالباً اونگھ کے سبب عجب بے تکا سوال کیا ہے کہ ’’توفیٰ کے معنی قبض روح