ج… اوّل سے آخر تک قرآنی محاورہ یہی ثابت کرتا ہے کہ ہر جگہ درحقیقت توفیٰ کے لفظ سے موت ہی مراد ہے۔ (ازالہ اوہام ص۳۳۴، خزائن ج۳ ص۲۷۰)
ان تینوں حوالوں نے بتا دیا کہ مرزا قادیانی کے نزدیک قبض روح اور موت دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ قبض روح کے معنی موت اور موت کے معنی قبض روح۔
اب اسی آیت کو لیجئے جو حافظ جی نے خود لکھی فقط ہم ہی نہیں کہتے بلکہ خود مرزا قادیانی اور ان کی ذریت بھی یہی کہنے پر مجبور ہوگی۔ ہر ترجمہ قرآن کریم یہی بتائے گا اور معمولی علم والا بھی جان جائے گا کہ اس آیت میں توفیٰ کے معنی موت کے نہیں۔ ہو الذی یتوفکم باللیل ویعلم ماجر حتم بالنہار (وہی ہے جو تم کو رات کے وقت لے لیتا ہے اور جانتا ہے کہ تم نے دن میں کیا کیا)
کیا بقول مرزا قادیانی کوئی عقل والا یہاں یہ معنی کرسکتا ہے کہ وہی ہے جو تم کو رات کے وقت مار ڈالتا ہے اور کیا ہر آدمی رات کے وقت مر جاتا ہے۔
غور سے دیکھ لیجئے کہ توفیٰ باب تفعل سے ہے فاعل اﷲ ہے مفعول انسان اور معنی موت کے نہیں بلکہ نیند کے ہیں۔
اگر مرزائی یہ کہیں کہ نیند بھی تو مجازی موت ہے جیسا کہ مرزا قادیانی نے فرمایا’’اس جگہ توفیٰ سے مراد حقیقی موت نہیں بلکہ مجازی موت مراد ہے جو نیند ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۳۲، خزائن ج۳ ص۲۶۹)
توا س مجازی کا جواب مرزا قادیانی کے خود کلمات میں کلمہ درحقیقت سے لیجئے یا تو یہ کہئے کہ نیند در حقیقت موت ہے اور یا یوں کہئے کہ توفیٰ کے معنی در حقیقت موت نہیں، نیند کو حقیقی موت تو کوئی احمق ہی بتائے گا۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ توفیٰ کے معنی در حقیقت موت نہیں۔
پس جب توفیٰ کے معنی موت کے کرتے ہوئے بھی مرزا قادیانی کے نزدیک اس سے مجازی موت یعنی نیند مراد لی جاسکتی ہے تو انہیں سوائے اپنے دعویٰ مسیحیت کے بطلان کے خوف کے کونسی دشواری حائل ہے کہ وہ انی متوفیک میں بھی ایسی ہی مجازی موت یعنی نیند مراد لے لیں جبکہ اثر امام حسن بصریؓ بھی اس کی تائید میں موجود اور بعض مفسرین اہل حق نے اس مراد کو ذکر بھی فرمایا پس یہ تو اچھی طرح واضح ہوگیا کہ توفیٰ کے معنی در حقیقت موت نہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ درحقیقت اس کے کیا معنی ہیں؟