اگر بالفرض والتقدیر جناب مرزا قادیانی خود ہی حج فرمالیتے تو بھی ان کلمات کفریہ کے ہوتے ہوئے وہ مسلمان ہی کیسے کہلاتے، مسیح یا مہدی ہونا تو دوسری چیز مسیح بن مریم علیہ السلام جو ہیں وہ ہیں۔ ان کے حج کی شان کا حدیث شریف میں اس طرح بیان، نہ اس میں خواب کا تذکرہ، نہ تعبیر کی ضرورت۔ ’’عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اﷲﷺ لیہلن عیسیٰ بن مریم بفج الروحاء بالحج والعمرۃ او بینہما جمیعا (مسند امام احمد)‘‘
مرزا قادیانی نے تو اپنے مزعومہ الہام سے پیشین گوئی بھی فرمائی کہ ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔‘‘ (میگزین ۱۴؍جنوری ۱۹۰۶ئ، تذکرہ ص۵۹۱) مگر مرنا توکجا جانا بھی نصیب نہ ہوا۔
احمد نبی اﷲ ﷺ
حضرت سرکار محمد رسول اﷲﷺ ہی کا نام نامی واسم گرامی احمد ہے ا سلئے کہ قرآن کریم نے صاف لفظوں میں فرمایا کہ: ’’واذ قال عیسیٰ بن مریم یا بنی اسرائیل انی رسول اﷲ الیکم مصدقا لما بین یدی من التورۃ ومبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد فلما جائہم بالبینات قالوا ہذا سحر مبین (صف:۶)‘‘ جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے فرمایا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف خدا کا رسول ہوں، تورات جو میرے آگے ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور ایک (بڑے عظیم الشان) رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد ہی تشریف لائیں گے جن کا نام نامی احمد (ﷺ) ہے پس جب وہ احمد نامی (رسول) دلیلوں کے ساتھ ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔
۱… قرآن کریم نے فلما جائہم (پس جب وہ ان کے پاس تشریف لائے) کہہ کر یہ جتا دیا کہ قرآن کریم اترنے کے وقت وہ احمدﷺ آچکے تھے۔
۲… مبشراً برسول (ایک بڑے عظیم الشان رسول کی بشارت دینے والا ہوں۔) کی تفسیر خود نبی اکرمﷺ نے اپنی زبان مبارک سے فرمائی (الشرح السنہ) عن عرباض بن ساریۃ عن رسول اﷲﷺ انہ قال انی عند اﷲ مکتوب خاتم النّبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ وساخبرکم باول امری دعوۃ ابراہیم وبشارۃ عیسیٰ (الحدیث مشکوٰۃ) عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ میں اس وقت سے اﷲ کے نزدیک نبیوں کا ختم کرناے والا لکھا ہوا ہوں، جبکہ یقینا آدم علیہ السلام اپنی گندھی ہوئی مٹی ہی کی حالت میں تھے تو میں تمہیں اپنا پہلا امر بتائوں کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت۔