خدا) ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے بے شمار ہاتھ اور بے شمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہا عرض وطول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں۔‘‘ (معاذ اﷲ من ذلک) (توضیح المرام ص۳۳، خزائن ج۳ ص۹۰)
یہ ہے ایمان باﷲ یہ خدا کی صفات ہیں اس پر مرزا کو مومن باﷲ بتایا جاتا ہے جس سے انحس (سب سے زیادہ منحوس) کفر بھی شرما جائے۔ شرم۔
ایمان بالرسل: اﷲ کے رسولوں پر ایمان کیسے ظاہر ہو جبکہ انبیاء کی شان میں کھل کھل کر گستاخیاں کرتے اور خود اپنے آپ کو اولوالعزم صاحب شریعت پیغمبروں سے بھی افضل بتاتے ہیں۔ ان کا مشہور شعر ہے۔
عیسیٰ کجاست تابہ نہد پابمنبرم
اینک منم کہ حسب بشارت آمدم
(ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
اور بعض نمونہ پہلے بیان ہوئے بعض آئندہ آتے ہیں پھر غیر انبیاء کو نبی مانتے اور پیغمبر بتاتے ہیں حالانکہ ان کے پاس کوئی سند نہیں۔
ایمان بالملائکہ: ملائکہ پر ایمان کا حال ان اقوال سے ظاہر۔ ’’ملائکہ ستاروں کی ارواح ہیں وہ ستاروں کے لئے جان کا حکم رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ کبھی ستاروں سے جدا نہیں ہوسکتے۔ جبرائیل جس کا سورج سے تعلق ہے۔…الخ!‘‘ (توضیح المرام ص۷۰، ۸۴، خز ائن ج۳ ص۷۰،۹۵)
ایمان بالکتب: کتاب الٰہی قرآن کریم کے متعلق ان کا یہ خیال۔
’’قرآن دنیا سے اٹھ گیا تھا میں اس کو دوبارہ آسمان سے لایا ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۳۰ تا ۷۳۱، خزائن ج۳ ص۴۹۳، ۴۹۲ حاشیہ ملخص)
پھر جو قرآن لائے اور جس طرح اس کو پیش کیا اس کی کیفیت کچھ ذکر ہوئی کچھ آئندہ آئے گی کہ الفاظ کا بدلنا تو محال تھا معنی پر ہاتھ صاف کرنے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا۔ جو معنی ان کے نفس نے بتائے وہ کئے۔ نہ ان معنی سے غرض رکھی جو صاحب وحی وکتابﷺ نے بتائے نہ اس تفسیر سے مطلب جو صحابہؓ نے فرمائی۔
ایمان بالیوم الآخر: یوم الآخر کا ڈر اور خوف، قیامت پر ایمان کی دلیل بنتا مگر ان کی پرائیویٹ زندگی ان کی دلیری پر دلالت کرنے والی جس کی طرف سردست اشارہ ہی کافی جب آمنت باﷲ …الخ! کے ایک ایک شعبہ میں ان کا یہ حال ہے تو اب نماز، روزہ، زکوٰۃ وحج کو دیکھنا فضول خیال۔