مگر یہ نہ لکھا کہ کیوں؟ اگر صرف ونحو پڑھی ہوتی۔ اقسام الف لام کا علم ہوتا تو لکھتے کہ الف لام کیسا ہے؟ اگر عربی تک نہیں پڑھی تو اب تو اردو زبان میں بھی عربی صرف نحو کی کتابیں چھپ گئی ہیں۔ انہی میں دیکھ لیا۱؎ ہوتا۔ پھر کہیں کتاب وسنت کا یہ حوالہ بھی دیا ہوتا کہ بعد خاتم النّبیینﷺ کسی مدعی الہام کا الہام حجت شرعی بھی ہے۔
مجددین اور الہام
مجدد کی حدیث حافظ صاحب نے تحریر تو فرمائی۔ اس کے الفاظ کی ترتیب میں ایسا بیہودہ تصرف بھی کیا اور لکھا کہ رأس مائۃ کل سنۃ جس کی غلطی ایک ادنیٰ متعلم عربی بھی بتا دے۔ مگر معنی میں کچھ تصرف کرکے بھی یہ نہ دکھایا کہ وہ مجدد ملہم ہوں گے اور ان کا علم شرعی حجت بھی ہوگا۔
پھر تعجب کہ اس دو ورقی کی چند سطروں ہی میں اتنا اتنا تناقض
اوّل… لکھتے ہیں کہ العلماء سے وہ لوگ مراد ہیں جو معرفت الٰہی کا کامل علم رکھتے ہیں۔
دوم… کامل معرفت صرف الہام سے ہوتی ہے۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ العلماء سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو الہام ہوتا ہے یعنی جنہیں الہام نہیں ہوتا وہ العلماء میں داخل نہیں اور انبیاء کے صحیح وارث نہیں۔
سوم… پھر آگے چل کر فرماتے ہیں کہ جو مولوی ان الہام اپنے والے مجددین کے ساتھ شامل ہوں گے وہ بھی ان مجددین کے طفیل صحیح علم کے وارث ہوں گے۔ یعنی بغیر الہام کے صرف مجددوں کے طفیل میں بھی صحیح علم کے وارث ہوجائیں گے۔
ذرا اپنے جملوں پر نظر ڈالیے کہ ایک دوسرے کا الٹا ہے یا نہیں؟
پھر تعجب اور سخت تعجب ہے کہ مجددین کے ساتھ شامل ہونے اور مجددین کے طفیل سے تو
۱؎ آپ الف لام عہد ذہنی کا مراد لے سکتے ہیں تو ظاہر ہے اس کا معہود علماء دین مصطفیﷺ ہیں کیونکہ وہ بین المتکلم والسامع متعین ومعروف ہیں اور وہی وارث ہو بھی سکتے ہیں۔ کیونکہ وارث اس کو کہتے ہیں جو اپنے مورث کا ترکہ پائے اور حضورﷺکا ترکہ علم دین ہے جیسا کہ حدیث صحیح میں وارد ہے تو یقینا وارث کے مصداق علماء دین ہوئے اس کا انکار حدیث زیر بحث کی تحریف اور حدیث لا نورث دینارا ولا درہما کا انکار ہے اور ملہمین تو کسی طرح مراد ہو ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ وہ مسبوق الذکر نہیں جو معہود خارجی قرارد ئیے جاسکیں۔ نہ سامع ومتکلم کے درمیان معروف ومعہود کہ بطریق عہد ذہنی مراد ہوسکتے۔ یہ کہاں کی صدائے بے ہنگام اور تحریف باطل اور ملہمین وارث کا مصداق بھی نہیں ہوسکتے کہ نئے الہامات نبوت کا ترکہ کب ہیں؟ حضورﷺ کا ترکہ تو کتاب وسنت ہے جیسا کہ خود حدیث شریف میں وارد ہوا۔