وما توفیقی الا باﷲ علیہ توکلت والیہ انیب
میں نے ابتدائے کلام ہی میں یہ کہہ دیا تھا کہ جماعت حقہ اسلام میں کوئی تفرقہ نہیں ما انا علیہ واصحابی ایک ہی راہ ہے۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی فرقے نہیں، سب اسی ایک راہ پر چلنے والے ہیں اور یہی وہ سواد اعظم ہے جس کے لئے ارشاد کہ اتبعوا السواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار (رواہ ابو دائود) تم سواداعظم کی پیروی کرو کیونکہ جو اس سے علیحدہ ہوا، جہنم میں گیا۔ اسی سواد اعظم کو حضورﷺ نے جماعت فرمایا اور ان اﷲ لا یجمع امتی (او قال) امتی علیٰ ضلالۃ وید اﷲ علی الجماعۃ ومن شذّ شذّ فی النار۔ فرمایا یقینا اﷲ میری امت کو (یا یوں فرمایا) کہ امت محمدﷺ کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اور اﷲ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو علیحدہ ہوا جہنم میں گیا۔
اب اگر مرزائی اجماع امت کے خلاف نئے نئے عقیدے تراش کر اس سواد اعظم وجماعت مسلمین سے الگ ہوں تو وہ اپنا مقام دیکھ لیں۔ حدیث میں بتا دیا گیا ہے۔ معمولی عقل والا انسان بھی اتنی سی بات کو سمجھ سکتا ہے۔ کہ جماعت کا لفظ تیس کروڑ انسانوں کے گروہ پر صادق آسکتا ہے یا گنے چنے چند مرزائی افر اد پر؟
حدیث العلماء ورثۃ الانبیاء میں بھی اس سواد اعظم کے علماء کی شان کا اظہار۔ ہاں وہ بے علم مدعیان علم ہے۔ جو اس سواد اعظم سے الگ ہوئے اور ذاتی اغراض کے لئے شرارتیں پھیلاتے ہوئے اپنی اپنی ٹکڑیاں بناتے ہیں۔ شرمن تحت ادیم السماء کہلائے۔ اس حدیث کے مصداق صحیح حافظ صاحب کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، مرزائی فرقہ میں بآسانی وہ ان سے ملاقات فرما سکتے ہیں۔ میں نہ کوئی نئی راہ بتاتا ہوں نہ نیا دین سکھاتا ہوں نہ اپنا کوئی نیا فرقہ بناتا ہوں، صرف اسی ما انا علیہ واصحابی والی راہ کی طرف بلاتا ہوں اور یہی سکھاتا ہوں کہ قرآن کریم وحدیث شریف کے معانی میں مدعیان الہام کے خود تراشیدہ الہام کو دخل نہ دیا جائے بلکہ ان کے وہی معنی سمجھے جائیں جو حضور خاتم النّبیینﷺ نے سمجھے اور اپنے صحابہ کو سمجھائے اور انہوں نے بتسلسل ہم تک پہنچائے۔
حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’انبیاء کے وارث علماء کوئی خاص لوگ ہیں۔‘‘ اور پھر اس کی تشریح فرماتے ہیں کہ ملہم آدمی خدا سے علم پاکر بولتا ہے اور اس کی مزید توضیح کہ العلماء سے مراد مجددین ملہمین ہیں نہ کہ عام مولوی۔ یہ حافظ صاحب کی خو د رائی ہے، نہ کہیں قرآن کریم میں اس کا ذکر نہ حدیث شریف میں اس کا بیان۔ الف لام کے متعلق یہ تو تحریر فرمایا کہ اسی بات کو ظاہر کرتا ہے