مطلوبہ کا داغ مفارقت مرزا قادیانی دل ہی میں لے کر مر گئے۔ پس اب مرزائی صاحبان ہی فیصلہ فرمائیں کہ مرزا قادیانی اپنے قول کے مطابق بد سے بدتر کاذب اور جھوٹے بنے یا نہیں؟
۲… پھر ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب نے جب مرزائیت سے توبہ کرنے کے بعد یہ پیش گوئی فرمائی کہ: ’’صادق کے سامنے شریر فنا ہوجائے گا یعنی تین سال کے اندر میرے سامنے مرزا قادیانی مر جائیں گے۔‘‘ (اعلان الحق ۱۲؍جولائی ۱۹۰۶ئ)
اس کے جواب میں جناب مرزا قادیانی نے اپنے اشتہار مجریہ ۱۶؍اگست ۱۹۰۶ء میں تحریر فرمایا کہ خدا صادق اور کاذب میں فرق کرکے دکھائے گا۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ شریر اور مفتری کے سامنے صادق اور مصلح فنا ہوجائے۔ یہ کبھی نہیں ہوگا کہ میں ایسی ذلت اور لعنت کی موت سے مروں کہ عبدالحکیم خان کی پیش گوئی کی میعاد میں ہلاک ہوجائوں۔ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۵۹)
دنیا کو معلوم ہے کہ مرزا قادیانی اس پیش گوئی کی میعاد یعنی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو ہیضہ کی اس وبائی بیماری میں جو بقول مرزا قادیانی ان کے مخالفوں کے لئے بصورت عذاب آئی تھی خود مبتلا ہوئے۔ (لاہور میں مرے اور قادیان میں دفن کئے گئے)
اب فیصلہ حافظ صاحب اور ان کے رفقاء ہی فرمائیں کہ مرزا قادیانی بقول خود میعاد پیش گوئی کے اندر ذلت اور لعنت کی موت سے مرے اور ان کے مرنے سے صادق اور کاذب کا فرق ظاہر ہوا یا نہیں؟ میں نے اپنی طرف سے کبھی ان کی شان میں کبھی کوئی سخت کلمہ نہ استعمال کیا اور نہ یہ میری عادت ہے۔ اگر مرزا قادیانی کے ان جملوں میں ان پر سخت سے سخت حملے ہیں تو ان کے ذمے دار خود مرزا قادیانی ہیں نہ کہ میں۔ اگر کوئی مرزائی ان سے کسی طرح جواب طلب کرسکتا ہے تو ضرور کرلے، میرے حقیقی اعتراض یا بقول حافظ صاحب سخت سے سخت حملے اگر تھے تو یہی۔ مگر میں نے حافظ صاحب کی (نمبر اول) یک رخی دوورقی اور (نمبردو) دورخی دوورقی کو اول سے آخر تک پڑھا۔ ان اعتراضوں کا جواب کہیں بھی نظر نہیں آیا ہاں میری تقریر کے بعض حصص پر اپنی کج فہمی کے سبب قطع وبرید کرتے ہوئے اپنے خیال ناقص کا اظہار فرمایا ہے اور جو سوالات اس میں کئے اور جو توجیہیں بیان کیں ان میں صرف اپنے مرزائی سرغنائوں کی نقالی کی ہے جس کے جواب علمائے اسلام کی طرف سے بارہا دئیے جاچکے ہیں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوچکے۔ تاہم شاید ماریشس کے لوگوں کی نظر سے کمتر گزرے ہوں۔ لہٰذا یہ دیکھتے ہوئے کہ حافظ صاحب کی تحریر طویل میں بار بار ایک ہی بات کا تکرار ہے۔ مختلف عنوانوں کے ماتحت مختصراً عرض کئے دیتا ہوں شاید کہ اس سے بھی کوئی ہدایت پاجاوے۔