ہاتھ تھے۔ ان کو یک دم حملہ کا وہم گمان بھی نہ تھا۔ حملہ کر کے غریب اور نہتے مسلمان کو شدید ضربات پہنچائیں۔ جس پر مقدمہ چلا۔ پادری عبدالرحمن جٹ جنرل پریذیڈنٹ اور اس کے کچھ حواریوں کو سزائے قید ہوئی۔ بوڑھا شخص شیخ چراغ دین نامی ضربات کی تاب نہ لا کر فوت ہوگیا۔
مرزائیوں نے عید گاہ کے ساتھ قبرستان پر حملہ کرنا چاہا۔ شیخ چراغ دین کو مسلم قبرستان میں دفنانے نہ دیا۔ مسلمانوں نے شیخ چراغ دین کے جنازے کو اٹھایا۔ ۱۲میل کندھوں پر بٹالہ لے گیا اور نعش کو مسٹر کشن ماتھر کی کچہری میں رکھ دیا اور فریاد کی کہ ان کے عید گاہ اور قبرستان پر مرزائیوں نے قبضہ کر لیا ہے اور دفنانے نہیں دیتے۔ انہوں نے پولیس کی گارد بھیجی جو قادیان میں مسلمانوں کے قبرستان میں پولیس کی حفاظت میں شیخ چراغ دین کو دفن کیاگیا۔ اس پر بٹار شہر کے لوگوں نے قبرستان اور مساجد پر بورڈ لگادئیے کہ یہ مسلمانوں کی مسجد ہے۔ اس میں مرزائی داخل نہیں ہوسکتا۔ یہ مسلمانوں کا قبرستان ہے اس میں مرزائی دفن نہیں ہوسکتا۔ مسلمان ہوٹلوں کے مالکان نے چھکے لٹکا کر لکھ دیا کہ یہ مرزائیوں اور عیسائیوں کے لئے جدابرتن ہیں اور پنجاب میں عام مطالبہ ہونے لگ گیا کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دیا جائے۔ سرکاری طبقہ میں علامہ اقبالؒ اور سر مرزا ظفر علی ریٹائرڈ جج ہائیکورٹ پنجاب لاہور نے مرزائیوں کے خلاف عملی سرگرمیاں دکھائیں۔ انجمن حمایت اسلام لاہور سے مرزائیوں کا اخراج ہوا۔
مرزاناصر احمد صدر خدام الاحمدیہ کا پولیس مقابلہ وگرفتاری مرزامحمود خلیفہ قادیان عیش وعشرت کا دلدادہ تھااور اس نے اپنے بیٹے ناصر احمد کو لندن سے تعلیم دلوائی۔ مرزامحمود کا خاندان گرمیوں میں قادیان چھوڑ، ڈلہوزی پہاڑ صحت افزا مقام پر رہتا تھا۔ کیونکہ وہ تماش بینوں کی وجہ سے مرغن غذائیں کھاتا۔ جو ہضم نہ ہوتیں اور اکثر مریض بن جاتا۔
محمد علی ایم اے لاہوری کی پارٹی کے لیڈر کی بھی ڈلہوزی میں کوٹھی تھی۔ ۱۹۴۲ء میں پولیس کو کسی تفتیش کے سلسلہ میں ڈلہوزی جانا پڑا۔ انہوں نے مرزاناصر احمد صدر خدام الاحمدیہ (لٹھ بند رضاکاروں کے انچارج) سے کوئی بات دریافت کرنی تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے وہ جماعتی اشارے پر مختلف جلسوں پر حملہ کر چکے تھے۔ مرزاناصر احمد اپنے آپ کو ہونے والا خلیفہ (شہزادہ) سمجھتا تھا۔ اس نے پولیس کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں اور اپنے کمرہ کی تلاشی نہ کرنے دی۔