ہے کہ اس وقت اکھنڈ ہندوستان کا عقیدہ رکھنے والے مرزائی ملک کے ۷۰فیصدی کلیدی اسامیوں پر فائز ہیں اور خدانخواستہ اگر کسی وقت جنگ ہوگئی تو نہ معلوم پھر ہمارا کیا حال ہوگا اور ان افسروں کی پوزیشن کیا ہوگی۔
آپ نے فرمایا۔ ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا تھا۔ مگر پاکستان کی مجلس دستور ساز میں جب بھی کوئی اسلامی بل پیش ہوتا ہے۔ سرظفر اﷲ اس بل کی مخالفت کرتا ہے۔ چنانچہ جب مسٹر اشتیاق حسین قریشی نے جمعہ کے روز تمام ملک میں ایک خطبہ ہونے کا بل پیش کیا تو چوہدری سرظفر اﷲ نے ڈیڑھ گھنٹہ اس کی مخالفت میں تقریر کی اور وہ بل محض اس لئے نہ پیش ہوسکا کہ احمدیوں کو اس سے اختلاف ہے اور وہ اپنی مرضی کا خطبہ دینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ بل آئندہ اجلاس کے لئے ملتوی کر دیا گیا اور آج تک پھر پیش نہ ہوسکا۔ اس طرح ہمارے کئی اسلامی قانون محض سرظفر اﷲ کی وجہ سے مسترد ہوگئے ہیں۔
آپ نے فرمایا میں جمہور المسلمین کی طرح مرزائیوں کو مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔ کیونکہ مرزائی ہم مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ لیکن جب یہ ملک ہم مسلمانوں نے اسلام کے لئے اور اسلام کے نام پر حاصل کیا ہے تو پھر مرزائیوں کو اس ملک میں اسلام کش حرکات کی اجازت کیونکر دی جاسکتی ہے اور ان کی سرگرمیاں کس طرح برداشت کی جاسکتی ہیں۔ آپ نے فرمایا: پاکستان میں فتنہ قادیانیت کو ختم کرنے کے لئے مسلمانوں کا آپس میں اتحاد اشد ضروری ہے اور آپس کے اتحاد کے بغیر اس فتنہ کو کسی صورت میں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ آپ نے اپنے مسلم وزراء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
آپ لوگوں نے یہ کرسیاں اسلام کے نام پر حاصل کی ہیں اور اگر آپ لوگ ان کرسیوں پر بیٹھا رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو اسلام کی حفاظت وخدمت کرنی ہوگی۔‘‘
(روزنامہ آزاد مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۵۲ئ)
وزارت خارجہ اور کشمیر
’’پاکستان کے وزیرخارجہ نے اگر پارلیمان میں یقین دلایا ہے کہ حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کو جلد سے جلد حل کرانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرے گی۔ لیکن وہ اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے کہ اگر پرامن ذرائع ناکام رہے تو قضیہ کشمیر کو نپٹانے کی کیا صورت ہوگی؟ انہوں نے کہا ہے میں اس مرحلہ پر کشمیر کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں