ہزار ہفتم میں مبعوث ہوئے۔ لہٰذا دعویٰ نبوت غلط اور بے سروپا ماننا پڑے گا۔
ناظرین! ذرا ایک قدم آگئے بڑھئے تو یہ مثل بالکل واضح ہو جائے گی کہ بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اﷲ! مرزاقادیانی کی اپنی عمر ان کے اپنے حساب کے مطابق ۱۱سال ہوتی ہے۔ مگر میاں بشیرالدین محمود نہیں مانتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مرزاقادیانی ہزارہفتم کا دور ختم کر کے ہزار ششم میں جا نکلے اور خود مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ میں ہزارششم سے ۱۱سال رہتے پیدا ہوا تو اس حساب سے آپ کی عمر ہزارششم کے ۱۱سال لے کر اور ہزار ہفتم کا پورا دور شمار کر کے ۱۱،۱۰سال ہوتی ہے۔ اگر مرزاقادیانی کے ہزار ہشتم کے چند سال بھی اور لے لئے جاویں تو ۱۱،۱۰ سے اوپر ہو جاتی ہے۔ ہمیں مرزاقادیانی اور مرزاقادیانی کے بیٹے کے مراقی ہونے میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں ملتی اور نہ ہی ان بھول بھلیوں کی کچھ سمجھ آتی ہے کہ ان دونوں میں سے کون سچا ہوسکتا ہے۔ اب ہم فیصلہ مرزائی دوستوں پر چھوڑتے ہیں کہ باپ اور بیٹا میں سے کون سچا تھا۔
مرزاقادیانی بقول خود کافر
مرزاقادیانی کا دعویٰ یہ ہے کہ: ’’ان روح اﷲ ینطق فی نفسی‘‘ تحقیق اﷲ کی روح میرے نفس میں بولتی ہے۔ (انجام آتھم ص۱۷۱، خزائن ج۱۱ ص۱۷۶)
اور شان یہ ہے: ’’وما ینطق عن الہویٰ ان ہوا الا وحی یوحی‘‘ اور نہیں بولتا مرزاقادیانی اپنی خواہش سے مگر جو وحی کیاگیا ہو اس کی طرف۔
(اربعین نمبر۳ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۳۸۵)
اور حالت یہ ہے کہ بغیر بلائے بولتا نہیں بغیر سمجھائے سمجھتا نہیں اور بغیر فرمائے کوئی دعویٰ نہیں کرتا۔ (ازالہ اوہام ص۱۹۸، خزائن ج۳ ص۱۹۷)
تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہے گا وحی منطوق اور منزل من السماء کہے گا۔ جس میں کسی قسم کا شک وشبہ خرمن ایمان کے لئے برق خاطف ثابت ہوگا اور جو کچھ بھی (انٹ سنٹ) اس پر نازل ہوگا۔ من اﷲ ہوگا اور تو اور اس میں ملہم الیہ کے لئے بھی چون وچرا یا لیت ولعل کی گنجائش نہ ہوگی۔ اس مطلب کی وضاحت کے لئے مرزاقادیانی اپنے جوامع الکلم یوں فرماتے ہی۔ ’’یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے۔ یقینی ہے۔ اگر میں ایک یوم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ ص۲۵، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)