تاکہ اپنا دربار گرم کریں۔ اس دربار مبارک کی شان بھی فرضیت قرآن سے ظاہر ہے۔‘‘
فرضیت قرآن اور وحدت وکثرت کی یہ اصطلاحات ہماری سمجھ سے بالا ہیں۔ کیونکہ یہ شیطانی الہامات ہیں۔ جن سے ہم اﷲ کی پناہ مانگتے ہیں۔ ’’اللہم لا ملجاء ولا منجا منک الا الیک‘‘
تین کو چار کرنے والا نبی
۱… ’’میں بھائیوں کے لحاظ سے بھی چوتھا ہوں اور بہنوں کے لحاظ سے بھی چوتھا۔ چھوٹوں میں بھی چوتھا ہوں اور بڑوں میں بھی چوتھا ہوں۔‘‘
۲… ’’میری پیدائش کی گھڑی چوتھی ہے۔ دن چوتھا ہے۔ تاریخ چوتھی ہے۔ صدی بعد ہزار کے چوتھی ہے۔ سال چوتھا ہے۔ یعنی ۴؍رمضان پیر کا دن ۱۳۰۳ھ میں پیدا ہوا۔‘‘
(خادم خاتم النبیین ص۵۹)
یہ دو دلیلیں واقعی بڑی اہمیت رکھتی ہیں نبوت پر استدلال کے لئے اندھے کی لاٹھی چلائی ہے۔
قادیانی نشان
اپنی نبوت پر استدلال میں لکھتے ہیں: ’’۱۹۲۵ء جولائی کے ماہ میں قادیان گیا ہوا تھا۔ وہاں بھی اﷲ تبارک وتعالیٰ نے بطور نشان بے موسم بارش بھیجی۔ وہ اس طرح کہ ایک رات کے اندر اطراف قادیان کے تالاب ہوگیا۔ ٹمٹم اور ٹانگے بند ہوگئے اور کم سے کم پانی راستہ پر ران برابر ٹھہرا تھا۔ لوگوں کی زبانی سنا گیا کہ شاید ہی کسی زمانے میں ایک رات میں اتنی بارش آئی ہو اور اس بارش میں مزید نشان یہ ہوا کہ قادیان کا مشہور کتب خانہ جس میں ہزارہا روپیہ کی نایاب کتب ہیں۔ ایک حصہ دیوار مع چھت گر گیا اور رات کا وقت تھا۔ بارش زور کی تھی۔ کوئی شخص خبر نہ لے سکا۔ آخر صبح تک تمام الماریاں کیچڑ میں لدی ہوئی تمام کتابیں بری طرح بھیگی ہوئی۔ صبح یہ نظارہ اپنی زبان حال سے پکار کر کہہ رہا تھا کہ جو کتب خانہ قادیان کی علمیت کے فخر کا باعث تھا۔ چن بسویشور کے تصرفات نے اس علم پر پانی پھیردیا۔ لطف یہ کہ وہ کل کتب دوپہر کے وقت جب دھوپ میں کھول کر ڈال دی گئیں تو وہیں ڈالی گئیں جہاں فقیر نے تکیہ لگایا تھا۔ فقیر بیٹھا ہوا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور خدائے قدیر کے احسان کا مزا اٹھا رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ کتب خانہ زبان سے پکار کر کہہ رہا ہے۔ اے صدیق! قادیان والوں نے ہمارے الفاظ کے غلط معنی کر کے دنیا میں دھوم مچائی ہے۔ ہم آپ کے پاس فریاد لائے ہیں۔ فاعتبروا یا اولیٰ الابصار لہم البشریٰ فی