’’مرزاغلام احمد پر امسال سات ہزار دو سو روپیہ اس کی سالانہ آمدنی قرار دے کر ایک سو بیاسی روپیہ اٹھ آنے انکم ٹیکس قرار دیا گیا۔ اس کی عذرداری پر اس کا بیان خاص موقع پر قادیان میں جب کہ کمترین بتقریب دورہ اس طرف گیا، لیا گیا اور تیرہ کس گواہان کی شہادت قلمبند کی گئی۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے بیان حلفی میں لکھوایا کہ اس کو تعلقہ داری زمین اور باغ کی آمدنی ہے۔ تعلقہ داری کی سالانہ تخمیناً ستاسی روپیہ دس آنے کی۔ زمین کی تخمیناً تین سو روپیہ سالانہ اور باغ کی سالانہ دو سو تین سو روپیہ چار سو روپیہ اور حددرجہ پانسوروپیہ کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو کسی اور قسم کی آمدنی نہیں ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کو تقریباً پانچ ہزار دو سو روپیہ سالانہ مریدوں سے اس سال پہنچا ہے۔ ورنہ اوسط سالانہ آمدنی تقریباً چار ہزار روپے کی ہوتی ہے۔ وہ پانچ مدوں میں جن کا اوپر ذکر کیاگیا۔ خرچ ہوتی ہے اور اس کے ذاتی خرچ میں نہیں آتی۔ خرچ اور آمدنی کا حساب باضابطہ کوئی نہیں ہے۔ صرف یادداشت سے تخمیناً لکھوایا ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کی ذاتی آمدنی باغ، زمین اور تعلقہ داری کی اس کے خرچ کے لئے کافی ہے اور اس کو کچھ ضرورت نہیں ہے کہ وہ مریدوں کا روپیہ ذاتی خرچ میں لاوے۔‘‘ (رپورٹ تاج الدین صاحب تحصیلدار بٹالہ ضلع گورداسپور مورخہ ۳۱؍اگست ۱۸۹۸ئ، مندرجہ ضرورۃ الامام ص۴۵، خزائن ج۱۳ ص۵۱۶)
پیدائش دولت اور صرف دولت کے متعلق مرزاقادیانی اور ان کے معتبر اکابر، مریدین کے مستند بیانات اوپر درج ہوئے اور انکم ٹیکس افسر کی سرکاری تحقیقات میں مرزاقادیانی نے جو حلفیہ غلط بیانی کی ہے۔ اس سے مرزاقادیانی کا معیار امانت ودیانت اظہر من الشمس ہے۔ قرآن نے تو نبی، رسول کی شان ’’صدیق امین‘‘ بیان فرمائی ہے۔ لیکن جناب مرزاقادیانی کے ذاتی بیانات اور ان کے اکابر مریدین کی شہادتوں کے لحاظ سے وہ اس کے برعکس ہیں۔ اﷲتعالیٰ قادیانیوں کو ہدایت نصیب کرے کہ صداقت وامانت کا قرآنی معیار کھل جائے۔ آمین! (للمؤلف)
باب سوم … دینی الفاظ کا چکر
مسلمان، قرآن، حدیث، اسلام اور خاتم النبیین
قادیانی فرقہ تقریر وتحریر میں بے تکلف ان الفاظ سے کام لیتا ہے۔ جس سے مسلمان دھوکہ کھاتے ہیں کہ گویا ان کے یہ الفاظ اسلامی اصطلاحات کے عین مطابق ہیں۔