مرزاقادیانی کو نبی ہونے کا دعویٰ تھا۔ نبی کی پیش گوئیاں تو ہمیشہ واضح اور دوٹوک ہوتی ہیں۔ لیکن مرزاقادیانی کی ہر پیش گوئی مبہم اور ہیراپھیری کا پہلو لئے ہوتی۔ چنانچہ اپنے حاشیہ برداروں کو بشارت سنادی کہ ۸۰سال کی عمر پاؤں گا۔ شاید پانچ چھ سال کی کمی بیشی ہو جائے۔ لیکن جناب کا انجام کیا ہوا۔ ۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء کو ہیضے کا شدید حملہ ہوا۔ مرض جان لیوا تھا۔ کئی بار قے کرنے کے بعد چھبیس مئی ۱۹۰۸ء کو ۶۸،۶۹سال کی عمر میں خدائی اور نبوت کا دعویٰ دار نبیوں پر افتراء باندھنے والا، ناموس رسالت پر ڈاکہ ڈالنے والا ناپاک وجود خالق حقیقی کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے ملک عدم کو سدھارا۔ مرزاقادیانی کی کوئی ایک پیش گوئی بھی حقیقت کا رنگ اختیار نہ کر سکی۔ تقریباً ہر بار اسے رسوائی وذلت ہی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن آپ اس کی چالاکی وہوشیاری ملاحظہ فرمائیے۔ ہمیشہ متوقع واقعہ سے متعلق مقام وقوع اور وقت کو نظر انداز کر دیتا۔ اپنے ڈھکوسلوں کو الہام کے دبیز پردوں میںلپیٹ کر پیش کرتا۔ تاکہ پینترا بدلنے اور ہیراپھیری کرنے میں سہولت رہے۔
مرزاقادیانی کی ناکام پیش گوئیاں، نفرت انگیز چالیس ایچ پیچ اور ہیرا پھیریاں یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ نبوت سے متعلق اس کا دعویٰ محض کذب پر مبنی تھا۔ حرص وآز کے اس بندے نے یہ ڈھونگ حصول اقتدار کے لئے رچایا تھا۔ سیالکوٹ کی کچہری کا یہ محرر اپنے خاندان کو اس عروج پر لے جانا چاہتا تھا جہاں سے ان کے لئے کسی مملکت کا حکمران بننا آسان ہو جائے۔ انگریز کی یہ ذریت پاکستان میں آج بھی ان مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں سرگرم عمل ہے اور مسلمانوں کی ملی غیت کے لئے ایک چیلنج۔
مسلمانوں اور قادیانیوں کے عقائد میں بنیادی اختلافات
سابقہ دو ابواب میں ان حالات پر روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ جن کے تحت قادیانی تحریک نے جنم لیا۔ ناظرین کو ان ہتھکنڈوں اور حربوں سے بھی روشناس کیا جاچکا ہے۔ جو ملت اسلامیہ سے غداری کی اس تحریک کو فروغ دینے کے لئے استعمال کئے گئے۔ اب اس کے بعض اساسی اعتقادات کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔ تاکہ اسلام سے اس کے بنیادی اختلاف کی صحیح تصویر سامنے آسکے۔