اخبار الفضل ۳۱؍دسمبر ۱۹۴۹ء
اوّل تو قادیان جماعت احمدیہ کا مرکز ہے۔ جس کی شاخیں ساری دنیا پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ۱۹۴۷ء کے فسادات کی وجہ سے محدود احمدیوں کو قادیان کو مجبوراً چھوڑنا پڑا تھا۔ وہ واپس یہاں آکر رہنے کے لئے بے قرار ہیں۔
اجیت دہلی
قادیان مورخہ ۳۰؍دسمبر ۱۹۴۹ئ، ۲۶تا۲۸؍دسمبر قادیان کا سہ روزہ سالانہ جلسہ کامیابی سے ختم ہوگیا ہے۔ شیخ بشیراحمد ایڈووکیٹ لاہور نے اپنی تقریر کے اخیر میں کہا۔ حضرت مرزابشیرالدین محمود دوسری مصروفیتوں کے باعث جلسہ کے لئے کوئی پیغام نہ لکھ سکے۔ لیکن وہ ہمیں الوداع کہنے آئے تھے اور انہوں نے یہ پیغام دیا کہ پاکستان کے قادیانی قادیان آنے کے لئے بے تاب ہیں اور وہ دن دور نہیں جب دنیا میں خدا کی حکومت ہوگی اور شیطان کا دور ختم ہو جائے گا۔ شیخ محبوب الٰہی عرفانی جو کہ اسی سال کے بزرگ ہیں اور حیدرآباد سے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ: ’’ہمارے نبی کا حکم ہے کہ وقت کی حکومت کی وفاداری کرو اور یہ حکم ہمارے لئے قدرتی حکم ہے۔ قادیانی ہندوستان کی حکومت کے اتنے ہی وفادار ہیں۔ جتنا کوئی دوسرا آج تک قادیانیوں نے حکومت کے خلاف سازش یا بغاوت میں کوئی حصہ نہیں لیا۔‘‘
مولوی شریف احمد نے ہندو مسلم اتحاد پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ: ’’قادیانی فرقہ کے بانی نے ۱۹۰۸ء میں سالانہ جلسے کے لئے جو تقریر تیار کر رکھی تھی اور وہ جلسے سے پہلے ہی وفات پاجانے کی وجہ سے کر نہ سکے۔ اس میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے یہ فارمولا پیش کیا کہ ہندو اور سکھ حضرت محمد کا احترام کریں اور مسلمان گاؤ کشی بند کر دیں۔ اگر کوئی فرقہ اس سمجھوتہ کی خلاف ورزی کرے گا تو وہ تین لاکھ روپیہ ہر جانہ دوسرے فریق کو ادا کرے۔‘‘
تقریر کا آخری حصہ قابل غور ہے کہ بانی تحریک احمدیہ نے ۱۹۰۸ء میں سالانہ جلسے کے لئے جو تقریر تیار کر رکھی تھی۔ اس میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کا فارمولا پیش کیا تھا کہ ہندو سکھ پیغمبر اسلام کا احترام کریں اور مسلمان گاؤ کشی بند کر دیں۔ جو اس سمجھوتے کی خلاف ورزی کرے گا وہ تین لاکھ روپیہ دوسرے فرقہ کو دے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کے اس فارمولا کی حقیقت مذہبی نقطہ نگاہ سے کیا ہے۔ یہ سوال علماء کے جواب دینے کا ہے۔ لیکن اقتصادی نکتہ نظر سے اس تجویز میں مسلمان ہی کو پریشان کیاگیا