درست رہیں گے اور چن بسویشور کے ذریعہ سے دیربسنت کے عقائد کی اصلاح ہوگی۔‘‘
(خادم خاتم النبیین ص۱۰)
ہم خود بسویشور کی عبارتوں سے ثابت کر چکے ہیں کہ اولیاء اﷲ سے ان کی مراد ہندو سادھو ہیں اور اب یہ حضرت انہی کی کتب قدیمہ کے حوالے سے اپنی اور میاں محمود کی علامات پیش فرمارہے ہیں۔ ان میں سے چند کتابوں کے نام یہ ہیں۔
چار مشہور وید یعنی رگگوید، سام وید، یجروید، اتھروید، دس گپتا اور میتا پوراں، ہندوؤں کی جدید کتب میں ہندو ازم، ستیارتھ پرکاش، سوامی اور دیدارتھ پرکاش وغیرہ ایسی کتابیں ہیں جن سے چن بسویشور کو اپنی نبوت کے لئے مزید نشانیاں مل سکتی تھیں۔ اگر یہ کتابیں ان کو مل جاتیں تو نہ جانے ان کی خباثتیں کہاں سے کہاں پہنچ جاتیں۔ منجملہ اور باتوں کے یہاں یہ بات بھی لکھی ہے کہ چن بسویشور کے ذریعہ میاں محمود کے غلط عقائد کی اصلاح ہوگی۔ دوسری باتیں کہاں تک سچی نکلیں۔ ہمیں فی الحال ان سے بحث نہیں۔ لیکن قارئین حضرات بلکہ خود دیندر انجمن کے افراد ایمانداری سے بتائیں کہ میاں محمود کے جو عقائد اس وقت تھے۔ کیا ان کی اصلاح ہوگئی۔ یا ویسے کے ویسے رہے۔ بلکہ ان کے عقائد میں روز بروز مزید خباثتیں شامل ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ جہنم رسید ہوگئے۔
میاں محمود کی مزید تقدیس
میاں محمود کی مزید تقدیس بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فقیر (چن بسویشور) جانتا ہے کہ وہ (میاں محمود دیر بسنت خلیفہ قادیان) ایک مرد متقی ہے اور بڑی بشارتیں دینے والا ہے۔ ان سے ہمارا جھگڑا صرف مذہبی چند فروعات میں ہے۔ جن کی غفلت سے اصول ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اسی وجہ سے میں نے مخالفت کی۔ اب مخالفت نہیں ہے۔ کیونکہ مجھے اﷲتعالیٰ نے علم دیا ہے کہ وہ قریب میں ہمارے عقیدے کے ساتھ ہو جائیں گے۔ جس کے آثار گذشتہ چند ماہ سے ظاہر ہورہے ہیں۔‘‘ (خادم خاتم النبیین دیباچہ ص ز، مورخہ یکم؍جون ۱۹۲۷ئ)
دروغ گورا حافظہ نباشد
مندرجہ بالا عبارت میں میاں محمود سے متعلق لکھا ہے کہ: ’’ان سے ہمارا جھگڑا صرف مذہبی چند فروعات میں ہے۔‘‘
یاد رہے کہ یہ کتاب خادم خاتم النبیین چن بسویشور نے ۱۹۲۶ء میں لکھی ہے اور اس کی تصریح انہوں نے خود اپنی سب سے پہلی کتاب دعوۃ الیٰ اﷲ کے ص۴۴ میں کی ہے اور دعوۃ الیٰ اﷲ