گر ہمیں مکتب وہمیں ملا
کار طفلاں تمام خواہد شد
توہین انبیاء
چند اچھے اصولوں کا نام مذہب ہے۔ خواہ وہ مذہب اسلام ہو یا کوئی دوسرا۔ ہر ایک مذہب کے داعی نے جب لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تو وہ اخلاق کا دروازہ تھا۔ جہاں سے کھڑے ہوکر انہوں نے عوام الناس کو خدا کا پیغام دیا۔ سننے اور دیکھنے والوں مذہبی داعی مذہب کو اسی وزن سے جھانکا۔ اگر آدمی کے اپنے اخلاق اچھے نہ ہوں تو آدمی آدمی نہیں رہتا۔ بلکہ وہ حیوان کے مترادف ہو جاتا ہے۔
عرب جیسی قوم جس کے دل پتھر اور ریت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ جس نے مخلوق پر خالق کا یقین کر لیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چور سے چوکیدار کیسے بن گئی۔ دختر کش، یتیم پرور کیسے بنادئیے گئے۔ بھیڑ بکریوں کے چرواہوں سے دنیا بھر کے شہنشاہ لرزہ براندام کیوں رہنے لگے تھے۔ یہ ساری برکت اس ذات گرامی کی تھی۔ جو اخلاق کا اس قدر بلند وروشن مینار تھا کہ جس کی روشنی کفر کی اندھیری راتوں میں اجالا کئے بغیر نہ رہ سکی۔
دنیا کی ہر بات اخلاق کے ترازو میں وزن کی جاتی ہے۔ اگر اس میں کوئی کمی ہو تو بات کا وزن نہیں رہتا اور پھر راہنما یا لیڈر کے لئے تو اس معیار کو اور بھی اونچا کرنا پڑتا ہے۔ اس اونچائی سے گرنے والے کو تاریخ نے اپنے لئے تو جگہ دی۔ اگر سرراہ کسی کو گالیاں دی جائیں تو ممکن ہے کہ وہ اپنی شرافت کی وجہ سے چپ رہے۔ لیکن راہ گیر ضرور محسوس کریں گے کہ یہ عام آدمی کی بات ہے۔ لیکن ایک آدمی اپنے کو نبی اور رسول کہتا ہو اور پھر خدا کے پیغمبروں کو کھلم کھلا گالیاں بھی دے۔ انہیں سربازار غلط طور پر رسوا کرے اور پھر یہ سب کچھ اس ملک میں ہورہا ہو جو انہی پاک اور سعید روحوں کے نام پر حاصل کیاگیا ہے تو پھر کیا ہمیں خدا کے فیصلہ کا انتظار نہیں کرنا چاہئے؟
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین
’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے؟‘‘
(کشتی نوح ص۶۶، خزائن ج۱۹ ص۷۱)