اگلی عبارت اس کی مزید وضاحت کر رہی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’دوسرے الفاظ میں اس ولی کے وجود میں بزمانۂ قیامت حضور مبنع انوار خود تشریف لاتے ہیں۔ اس حقیقت کی وجہ سے یہ بروز محمد کہلاتا ہے۔ اسی وجود کی نشاندہی میں مسیح ظاہر ہوتا ہے۔ جو ’’انہ لعلم للساعۃ‘‘ کی حقیقت منکشف کرنے کے لئے بچہ کی طرح کچھ نہ کچھ کہہ دے کر عقائدی طوفان مچاتا ہے۔ قیامت کا علم دینے کے لئے اس کی بدنامی مقدر ہوتی ہے۔‘‘ (مہر نبوت ص۴۳)
قارئین حضرات! اس عبارت میں آخری فقرہ ’’بدنامی مقدر ہوتی ہے‘‘ کو دوبارہ ملاحظہ فرمالیں۔ کیا آپ کو یہ گوارا ہے کہ خدانخواستہ آپ کی بدنامی مقدر ہو۔ یقینا نہیں تو کیا جو خدا کا نبی یا بروز نبی ہوگا۔ اﷲ کو یہ گوارا ہوسکتا ہے کہ اس کی بدنامی ہی مقدر ہو؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رسوا سربازار کو امتحان وآزمائش اور بدنامی میں امتیاز نہیں۔ لیکن اچھا ہوا اپنے ہی قلم سے تقسیم مناصب کر دی۔ جو اﷲتعالیٰ کا مقرب اور نبی ہوتا ہے۔ بعض موقعوں پر اﷲتعالیٰ اسے آزمائش میں ڈالتے ہیں ؎آزمائش ہے نشان بندگان محترم
جانچ ہوتی ہے انہی کی جن پہ ہوتا ہے کرم
اور جو نبی نہیں بلکہ متنبی (جھوٹی نبوت کے دعویدار) ہوتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ کی جانب سے ان کے لئے بدنامی مقدر ہوتی ہے۔ چن بسویشور کو اپنی حقیقت کا علم تو تھا ہی اس لئے حقیقت ظاہر کر دی کہ وہ ایسا بزور محمد ہے کہ بدنامی اس کے لئے مقدر ہے۔ ’’سود اﷲ وجہ یوم القیامۃ‘‘
بروز محمد کی تشریح
پچھلی عبارت میں بروز محمد (ﷺ) کی تشریح اگرچہ آچکی ہے کہ اس ولی کے وجود میں حضور منبع انوار خود آتے ہیں۔ لیکن اس کی مزید تشریح اشعار میں بھی کر دی ہے۔ اسے بھی ملاحظہ فرمالیں۔
بروز محمد ہے نبیوں کا حاکم
ہے مظہر خدا کا قرآں کا ہے عالم
ہے قاضی حشر حوش کوثر کا قاسم
(مہر نبوت ص۴۳)